نہیں کہ مجھ کو قیامت کا اعتقاد نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہیں کہ مجھ کو قیامت کا اعتقاد نہیں
by مرزا غالب

نہیں کہ مجھ کو قیامت کا اعتقاد نہیں
شبِ فراق سے روزِ جزا زیاد نہیں

کوئی کہے کہ “شبِ مَہ میں کیا بُرائی ہے”
بلا سے آج اگر دن کو ابر و باد نہیں

جو آؤں سامنے اُن کے تو مرحبا نہ کہیں
جو جاؤں واں سے کہیں کو تو خیر باد نہیں

کبھی جو یاد بھی آتا ہوں میں، تو کہتے ہیں
کہ “آج بزم میں کچھ فتنۂ و فساد نہیں”

علاوہ عید کے ملتی ہے اور دن بھی شراب
گدائے کُوچۂ مے خانہ نامراد نہیں

جہاں میں ہو غم و شادی بہم، ہمیں کیا کام؟
دیا ہے ہم کو خدا نے وہ دل کہ شاد نہیں

تم اُن کے وعدے کا ذکر اُن سے کیوں کرو غالبؔ
یہ کیا؟ کہ تم کہو، اور وہ کہیں کہ “یاد نہیں”


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.