نہیں کہ عشق نہیں ہے گل و سمن سے مجھے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہیں کہ عشق نہیں ہے گل و سمن سے مجھے
by وحشت کلکتوی

نہیں کہ عشق نہیں ہے گل و سمن سے مجھے
دل فسردہ لیے جاتا ہے چمن سے مجھے

مثال شمع ہے رونا بھی اور جلنا بھی
یہی تو فائدہ ہے تیری انجمن سے مجھے

بڑھی ہے یاس سے کچھ ایسی وحشت خاطر
نکال کر ہی رہے گی یہ اب وطن سے مجھے

عزیز اگر نہیں رکھتا نہ رکھ ذلیل ہی رکھ
مگر نکال نہ تو اپنی انجمن سے مجھے

وطن سمجھنے لگا ہوں میں دشت غربت کو
زمانہ ہو گیا نکلے ہوئے وطن سے مجھے

مرے بھی داغ جگر مثل لالہ ہیں رنگیں
ہے چشمک اس گل خوبی کے بانکپن سے مجھے

چھپا نہ گوشہ نشینی سے راز دل وحشتؔ
کہ جانتا ہے زمانہ مرے سخن سے مجھے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse