نہیں چھپتا ترے عتاب کا رنگ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہیں چھپتا ترے عتاب کا رنگ
by ریاض خیرآبادی

نہیں چھپتا ترے عتاب کا رنگ
کہ بدلنے لگا نقاب کا رنگ

پھر گیا آنکھ میں شراب کا رنگ
ظالم اف رے ترے شباب کا رنگ

اب تو لالے ہیں جان مضطر کے
اور ہی کچھ ہے اضطراب کا رنگ

تیرے آتے ہی ہو گئی پانی
اڑ گیا محتسب شراب کا رنگ

رنگ لائے گا دیدۂ پر آب
دیکھنا دیدۂ پر آب کا رنگ

داغ دامن نے بھی کیا پیدا
حشر کے روز آفتاب کا رنگ

شیخ جانا تجھے محبت میں
دیکھتا جا مری شراب کا رنگ

صدقے میں اپنی پارسائی کے
کہ بڑھاپے میں ہے شباب کا رنگ

خون سے جیسے واسطہ ہی نہیں
صاف ہے خنجر پر آب کا رنگ

ریش واعظ سفید ہے کتنی
نہیں چڑھتا کبھی خضاب کا رنگ

رنگ کا اس کے پوچھنا کیا ہے
جس کا سایہ بھی دے گلاب کا رنگ

سچ ہے اے حضرت ریاضؔ یہ بات
کہ جدا سب سے ہے جناب کا رنگ

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse