نہیں ممکن کہ ترے حکم سے باہر میں ہوں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہیں ممکن کہ ترے حکم سے باہر میں ہوں
by آغا اکبرآبادی

نہیں ممکن کہ ترے حکم سے باہر میں ہوں
اے صنم تابع فرمان مقدر میں ہوں

دل تو حیران ہے کیوں ششدر و مضطر میں ہوں
عشق کہتا ہے کہ اس پردہ کے اندر میں ہوں

پیر و سلسلۂ زلف معنبر میں ہوں
طوق سے عذر نہ زنجیر سے باہر میں ہوں

آب روئے صدف و زینت گوش محبوب
در نایاب جو سنتے ہو وہ گوہر میں ہوں

اب سبک دوش میں ہوں بوجھ گلے کا ٹل جائے
تیغ قاتل سے الٰہی کہیں بے سر میں ہوں

طائر قبلہ نما کا ہے اشارہ مجھ سے
نامہ پہنچانے کو پردار کبوتر میں ہوں

آئی پھر فصل بہاری مدد اے جوش جنوں
دو قدم چل نہیں سکتا ہوں وہ لاغر میں ہوں

نطق کہتا ہے کہ عیسیٰ مرا دم بھرتا ہے
دہن یار کو دعویٰ ہے کہ کوثر میں ہوں

جادو برحق ہے تو کافر ہے عیاں را چہ بیاں
تیرا مارا ہوا اے چشم فسوں گر میں ہوں

محتسب کو بھی ہدایت کروں مے نوشی کی
واعظا تیری جگہ گر سر منبر میں ہوں

نہ انہیں میری شکایت نہ مجھے ان کا گلہ
نہ کدورت انہیں مجھ سے نہ مکدر میں ہوں

حیرت حسن سے اک سکتہ کا عالم دیکھا
آئینہ منہ کو ترے تکتا ہے ششدر میں ہوں

دور فرہاد گیا یہ ہے زمانہ میرا
بے ستوں اب تو اٹھائے ہوئے سر پر میں ہوں

آج کل حسن جوانی پہ جو ہے ان کو غرور
ناز کہتا ہے کہ انداز سے باہر میں ہوں

برق و سیماب کا آغاؔ نہ رہے نام و نشاں
دل کی بیتابی سے اک بار جو مضطر میں ہوں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse