نہیں ملتا دلا ہم کو نشاں تک

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہیں ملتا دلا ہم کو نشاں تک
by میاں داد خاں سیاح

نہیں ملتا دلا ہم کو نشاں تک
مکاں ڈھونڈ آئے اس کا لا مکاں تک

بنا ہر موئے تن خار مغیلاں
ستایا جوش وحشت نے یہاں تک

ہماری جان کے پیچھے پڑا ہے
دل ناداں کو سمجھائیں کہاں تک

رواں شب کو ہوا کیا ناقۂ روح
نظر آئی نہ گرد کارواں تک

زمیں پہ زلزلہ آیا تو پہنچا
مرے نالوں کا غوغا آسماں تک

ملے ہے دل کو ذوق بوسۂ لب
مزا ہے ورنہ ہر شے کا زباں تک

جو رکھتے تھے دماغ اپنا فلک پر
زمیں پر اب نہیں ان کا نشاں تک

جلایا شمع سا اس شعلہ رو نے
گئے گھل سوز غم سے استخواں تک

جہاں کی سیر کی سیاحؔ ہم نے
نہ پہنچے پر سخن کے قدرداں تک

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse