نہیں غم گر خفا سارا جہاں ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہیں غم گر خفا سارا جہاں ہے
by ہاجر دہلوی

نہیں غم گر خفا سارا جہاں ہے
خدا کا شکر ہے وہ مہرباں ہے

یہاں فریاد کی طاقت کہاں ہے
وہ ناحق اپنے دل میں بد گماں ہے

نہیں کچھ عشق محتاج بیاں ہے
ہمارا حال صورت سے عیاں ہے

نیاز و ناز عشق و حسن دیکھو
ہمارا سر ہے ان کا آستاں ہے

وفاداری میں گر بے مثل ہیں ہم
ستم میں وہ بھی یکتائے زماں ہے

حقیقت میں ستم ایجاد تم ہو
عبث کچھ جوش پر طبع رواں ہے

وظیفہ ہے مجھے تو نام ان کا
کہ ہر دم ہجر میں ورد زباں ہے

ہمیں تو حال کہنا موت ٹھہرا
تمہارے واسطے اک داستاں ہے

یہاں میں ہجر میں گھبرا رہا ہوں
خدا معلوم وہ اس دم کہاں ہے

حقیقت میں نگاہیں کہہ رہی ہیں
نہاں جس کو سمجھتے ہو عیاں ہے

نظر کے ساتھ تم بھی پھر گئے ہو
وہ پہلی سی محبت اب کہاں ہے

ہمارے واسطے ہے کھیل مرنا
انہیں گر قتل عاشق کا رواں ہے

سکون دل کبھی حاصل نہ ہوگا
ہمارے سر پہ جب تک آسماں ہے

عدو جھجکا تو وہ کہتے ہیں اس سے
چلے آؤ تمہارا ہی مکاں ہے

کوئی اترا نہ اس کے پار اب تک
کہ دریائے محبت بے کراں ہے

وہ کہتے ہیں مری تربت پر آ کر
یہ میرے کشتۂ غم کا نشاں ہے

قضا آئی ہے جو جاؤں وہاں پر
ملک الموت ان کا پاسباں ہے

طبیعت ہے وہی اب بھی ہماری
مگر وہ آپ کی الفت کہاں ہے

نہ ہاجرؔ کو فقط دہلی کا سمجھو
کہ اب وہ شاعر ہندوستاں ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse