نگہ کے سامنے اس کا جوں ہی جمال ہوا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نگہ کے سامنے اس کا جوں ہی جمال ہوا
by نظیر اکبر آبادی

نگہ کے سامنے اس کا جوں ہی جمال ہوا
وہ دل ہی جانے ہے اس دم جو دل کا حال ہوا

اگر کہوں میں کہ چمکا وہ برق کی مانند
تو کب مثل ہے یہ اس کی جو بے مثال ہوا

قرار و ہوش کا جانا تو کس شمار میں ہے
غرض پھر آپ میں آنا مجھے محال ہوا

ادھر سے بھر دیا مے نے نگاہ کا ساغر
ادھر سے زلف کا حلقہ گلے کا جال ہوا

بہار حسن وہ آئے نظر جو اس کی نظیرؔ
تو دل وہیں چمن عشق میں نہال ہوا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse