نگاہ یار سوں حاصل ہے مجھ کوں مے نوشی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نگاہ یار سوں حاصل ہے مجھ کوں مے نوشی
by داؤد اورنگ آبادی

نگاہ یار سوں حاصل ہے مجھ کوں مے نوشی
لب خموش نے بخشا ہے اس کے خاموشی

بجا ہے گر کرے عاشق کوں ایک دور میں مست
ہے جام چشم صنم میں شراب بے ہوشی

کیا ہے شوخ نے بر میں قبائے نافرماں
عدول کیوں نہ کرے وعدۂ ہم آغوشی

سجن کے ناوک مژگاں کے دل میں ہیبت رکھ
کیا ہے میں نے یہ دریا منے زرہ پوشی

کیا نہیں ہوں رقم خط میں اس سبب داؤدؔ
میں نامہ بر سوں کہا ہوں کہ راز ہے گوشی


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.