نگاہ لطف کبھی گر وہ مست ناز کرے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نگاہ لطف کبھی گر وہ مست ناز کرے
by خوشی محمد ناظر

نگاہ لطف کبھی گر وہ مست ناز کرے
نیاز مند کو عالم سے بے نیاز کرے

وہ سرنوشت جبیں پر بجا ہے ناز کرے
جو آستاں پہ ترے سجدۂ نیاز کرے

نہ تیرے چاہنے والوں میں ہو یہ جنگ و جدل
اشارہ گر نہ تری چشم فتنہ ساز کرے

بجھائیں پیاس کہاں جا کے تیرے مستانے
جو ساقیا در مے خانہ تو نہ باز کرے

جہاں میں شور ہے اور وہ نگار پردے میں
عجب ہو سیر جو وہ رخ سے پردہ باز کرے

نہیں وہ لذت آزار عشق سے آگاہ
ستم میں اور کرم میں جو امتیاز کرے

جو چاہے گرمیٔ ہنگامہ بزم دوراں میں
صدا بلند کرے اور زباں دراز کرے

جو بزم انس میں چاہے کہ شمع محفل ہو
تو دل میں عشق سے پیدا ذرا گداز کرے

انہیں کے حسن سے ہے گرم عشق کا بازار
دعا خدا سے ہے عمر بتاں دراز کرے

فسانہ گو سے کہو مختصر ہو قصۂ جم
حدیث گیسوئے جاناں ذرا دراز کرے

یہ سلسلہ غم دوراں کا ہے ابد پیوند
سکون دل کا جو چاہے وہ ترک آز کرے

خدا کا نام بھی لو بازوؤں سے کام بھی لو
تو فکر کار خداوند کارساز کرے

ہوا و حرص سے ناظرؔ رہے جو پاک نظر
تو ہمسری نہ حقیقت کی کیوں مجاز کرے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse