نگاہوں کا مرکز بنا جا رہا ہوں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نگاہوں کا مرکز بنا جا رہا ہوں
by جگر مراد آبادی

نگاہوں کا مرکز بنا جا رہا ہوں
محبت کے ہاتھوں لٹا جا رہا ہوں

میں قطرہ ہوں لیکن بہ آغوش دریا
ازل سے ابد تک بہا جا رہا ہوں

مبارک مبارک مری یہ فنائیں
دوعالم پہ چھایا چلا جا رہا ہوں

وہی حسن جس کے ہیں یہ سب مظاہر
اسی حسن میں حل ہوا جا رہا ہوں

یہ کس کی طرف سے یہ کس کی طرف کو
میں ہم دوش موج فنا جا رہا ہوں

نہ جانے کہاں سے نہ جانے کدھر کو
بس اک اپنی دھن میں اڑا جا رہا ہوں

مجھے روک سکتا ہو کوئی تو روکے
کہ چھپ کر نہیں برملا جا رہا ہوں

میرے پاس آؤ یہ کیا سامنے ہوں
مری سمت دیکھو یہ کیا جا رہا ہوں

نگاہوں میں منزل مری پھر رہی ہے
یوں ہی گرتا پڑتا چلا جا رہا ہوں

تری مست نظریں غضب ڈھا رہی ہیں
یہ عالم ہے جیسے اڑا جا رہا ہوں

کدھر ہے تو اے غیرت حسن خود میں
محبت کے ہاتھوں بکا جا رہا ہوں

نہ اوراک ہستی نہ احساس مستی
جدھر چل پڑا ہوں چلا جا رہا ہوں

نہ صورت نہ معنی نہ پیدا نہ پنہاں
یہ کس حسن میں گم ہوا جا رہا ہوں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse