نگاہوں میں اقرار سارے ہوئے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نگاہوں میں اقرار سارے ہوئے ہیں
by آغا اکبرآبادی

نگاہوں میں اقرار سارے ہوئے ہیں
ہم ان کے ہوئے وہ ہمارے ہوئے ہیں

جن آنکھوں میں آنسو چکارے ہوئے ہیں
ہم ان کی نگاہوں کے مارے ہوئے ہیں

نہ کھٹکیں کہو کس طرح تیر مژگاں
جگر پر ہمارے اتارے ہوئے ہیں

جھڑے جو تری کفش زریں کے ذرے
فلک پر وہ جا کر سیارے ہوئے ہیں

عبث جان دیتی ہے بلبل گلوں پر
یہ اس رخ کے صدقے اتارے ہوئے ہیں

کس انداز سے بند محرم کسے ہیں
کہ جوبن کو ان کے ابھارے ہوئے ہیں

یقیں ہے بلا ہو کوئی آج نازل
وہ بالوں کو اپنے سنوارے ہوئے ہیں

خبردار ہاتھوں سے جانے نہ پائیں
یہ دزد حنا مال مارے ہوئے ہیں

کہے دیتی ہیں صاف آنکھیں تمہاری
کسی غیر سے کچھ اشارے ہوئے ہیں

میں منجدھار میں ڈوبتا ہوں الٰہی
وہ دل لے کے میرا کنارے ہوئے ہیں

ہمیشہ جو بھرتے تھے دم دوستی کا
وہی دشمن جاں ہمارے ہوئے ہیں

نظر کر دعا پر خداوند عالم
کہ ہم ہاتھ اپنے پسارے ہوئے ہیں

بھلا غیر کی اس میں ہے کیا شکایت
وہی دشمن جاں ہمارے ہوئے ہیں

انہیں ہم نے نہلا دیا دے کے چھینٹیں
عجب لطف دریا کنارے ہوئے ہیں

خبر آمد گل کی شاید ہے آغاؔ
چمن سارے جھاڑے بہارے ہوئے ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse