نکہت طرۂ مشکیں جو صبا لائی ہے
Appearance
نکہت طرۂ مشکیں جو صبا لائی ہے
کوئی آوارہ ہوا ہے کوئی سودائی ہے
بے خودی سے ہے یہاں بے خبری کا عالم
خود نمائی کو وہاں شغل خود آرائی ہے
اپنی ہی جلوہ گری ہے یہ کوئی اور نہیں
غور سے دیکھ اگر آنکھ میں بینائی ہے
ہے مجھے کشمکش سعی و طلب سے نفرت
دل مرا ترک تمنا کا تمنائی ہے
جز دل پاک نہ پایا حرم خاص کہیں
دیر و کعبہ میں عبث ناصیہ فرسائی ہے
ناز کی جلوہ گری کے لئے منظر ہے نیاز
ناتوانی مری ہم رنگ توانائی ہے
جب طبیعت ہی نہ حاضر ہو تو بے سود ہے فکر
شعر گوئی تو کہاں قافیہ پیمائی ہے
منہ پہ لاؤں تو یہ کم ظرف بہک جائیں ابھی
بات جو پیر خرابات نے سمجھائی ہے
خود منادی و منادیٰ ہوں نہ غیبت نہ حضور
عالم غیب سے یوں دل میں ندا آئی ہے
دل یہ کہتا ہے کہ حاصل کی ہے تحصیل عبث
نہ تمنا کوئی شے ہے نہ تمنائی ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |