نکل جائے یوں ہی فرقت میں دم کیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نکل جائے یوں ہی فرقت میں دم کیا
by جگت موہن لال رواں

نکل جائے یوں ہی فرقت میں دم کیا
نہ ہوگا آپ کا مجھ پر کرم کیا

ہنسے بھی روئے بھی لیکن نہ سمجھے
خوشی کیا چیز ہے دنیا میں غم کیا

مبارک ظالموں کو ظلم ہم پر
جو اپنا ہی کیا ہے اس کا غم کیا

مٹا جب امتیاز کفر و ایماں
مکان کعبہ کیا بیت الصنم کیا

نہیں جب قوت احساس دل میں
غم دنیا سرور جام جم کیا

گزر ہی جائیں گے غربت کے دن بھی
کریں دو دن کو اب اخلاق کم کیا

مری بگڑی ہوئی تقدیر بھی ہے
تمہارے طرۂ گیسو کا خم کیا

مری تقدیر میں لکھا ہے تو نے
بتا اے مالک لوح و قلم کیا

بھلا دے گی ہمیں دو دن میں دنیا
ہماری شاعری کیا اور ہم کیا

ہر اک مشکل کو حل کرتی ہے جب موت
کروں آگے کسی کے سر کو خم کیا

رواںؔ کے درد کا عالم نہ پوچھو
کوئی یوں ہوگا مست جام جم کیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse