نکلے ہو کس بہار سے تم زرد پوش ہو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نکلے ہو کس بہار سے تم زرد پوش ہو
by نظیر اکبر آبادی

نکلے ہو کس بہار سے تم زرد پوش ہو
جس کی نوید پہنچی ہے رنگ بسنت کو

دی بر میں اب لباس بسنتی کو جیسے جا
ایسے ہی تم ہمارے بھی سینہ سے آ لگو

گر ہم نشہ میں بوسہ کہیں دو تو لطف سے
تم پاس منہ کو لا کے یہ ہنس کر کہو کہ لو

بیٹھو چمن میں نرگس و صد برگ کی طرف
نظارہ کر کے عیش و مسرت کی داد دو

سن کر بسنت مطرب زرین لباس سے
بھر بھر کے جام پھر مئے گل رنگ کے پیو

کچھ قمریوں کے نغمہ کو دو سامعہ میں راہ
کچھ بلبلوں کا زمزمۂ دل کشا سنو

مطلب ہے یہ نظیرؔ کا یوں دیکھ کر بسنت
ہو تم بھی شاد دل کو ہمارے بھی خوش کرو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse