نکلی جو روح ہو گئے اجزائے‌ تن خراب

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نکلی جو روح ہو گئے اجزائے‌ تن خراب
by احمد حسین مائل

نکلی جو روح ہو گئے اجزائے‌ تن خراب
اک شمع بجھ گئی تو ہوئی انجمن خراب

کیوں ڈالتا ہے خاک کہ ہوگا کفن خراب
میں ہوں سفید پوش نہ کر پیرہن خراب

جی میں یہ ہے کہ دل ہی کو سجدے کیا کروں
دیر و حرم میں لوگ ہیں اے جان من خراب

نازک دلوں کا حسن ہے رنگ شکستگی
پھٹنے سے کب گلوں کا ہوا پیرہن خراب

دنیا نے منہ پہ ڈالا ہے پردہ سراب کا
ہوتے ہیں دوڑ دوڑ کے تشنہ دہن خراب

ابلیس سے یہ کہتا ہے لعنت کا طوق روز
آدم خراب یا صفت ما و من خراب

کیا خوش نما ہو خضر بڑھے گر لباس عمر
قد سے جو ہو دراز تو ہو پیرہن خراب

میرا سلام عشق علیہ السلام کو
خسرو ادھر خراب ادھر کوہ کن خراب

یوسف کے حسن نے یہ زلیخا کو دی صدا
لو انگلیاں کٹیں وہ ہوئے طعنہ زن خراب

گر بس چلے تو آپ پھروں اپنے گرد میں
کعبے کو جا کے کون ہو اے جان من خراب

زخمی ہوا ہے نام کو در پردہ حسن بھی
یوسف کا خون گرگ سے ہے پیرہن خراب

وعدہ کیا ہے غیر سے اور وہ بھی وصل کا
کلی کرو حضور ہوا ہے دہن خراب

اے خاک گور دیکھ نہ دھبا لگے کہیں
رکھ دوں ابھی اتار کے گر ہو کفن خراب

کیسی بھی ہو زمین عجب ہل ہے طبع تیز
مائلؔ جو بوئیں ہم نہ ہو تخم سخن خراب

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse