نکلی جو روح جسم سے پھر ہے بدن میں کیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نکلی جو روح جسم سے پھر ہے بدن میں کیا
by شاہ اکبر داناپوری

نکلی جو روح جسم سے پھر ہے بدن میں کیا
جب شمع بجھ گئی تو رہا انجمن میں کیا

وہ شعر کیا کہ دل میں جو نشتر چبھا نہ دے
ہو جس میں بو نہ درد کی ہے اس سخن میں کیا

ٹیڑھا جواب دیتے ہو تم سیدھی بات کا
یاد اک ادا یہی ہے تمہیں بانکپن میں کیا

حل کر دیا تبسم لب نے یہ مسئلہ
اب عذر آپ کو ہے ثبوت دہن میں کیا

آ ہم دکھائیں داغ جگر کی تجھے بہار
اے عندلیب سیر ہے تیرے چمن میں کیا

کیوں چومتے ہیں اس کو نکیرین بار بار
نام اس کا ہے لکھا ہوا میرے کفن میں کیا

سو عہد اس نے توڑے مگر پھر یقین ہے
ہے معجزہ یہی لب پیماں شکن میں کیا

اے اہل عقل اس کا مزا یوں نہ آئے گا
دیوانہ بن کے دیکھو ہے دیوانہ پن میں کیا

جو نافہ ہے وہ کاکل مشکیں کی ہے گرہ
صد رنگ کیا ہے اور ہے رنگ سمن میں کیا

تم مال دار ہو نہ ہنر ور نہ با کمال
اکبرؔ تمہاری قدر ہو ملک دکن میں کیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse