نورجہاں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نورجہاں
by چندر بھان کیفی دہلوی

ہر جلوہ جہانگیر تھا جس وقت جواں تھی
کہتے ہیں جسے نورجہاں نور جہاں تھی

تھا حور کا ٹکڑا بت طناز کا مکھڑا
اک شمع تھی فانوس میں جو نور فشاں تھی

انداز میں شوخی میں کرشمہ میں ادا میں
تلوار تھی برچھی تھی کٹاری تھی سناں تھی

رخسار جہاں تاب کی پڑتی تھیں شعاعیں
یا حسن کے دریا سے کوئی موج رواں تھی

بجلی تھی چمکتی ہوئی دامان شفق میں
یا موج تبسم تھی لبوں میں جو نہاں تھی

گلزار معانی کی چہکتی ہوئی بلبل
شاعر تھی سخن سنج تھی اعجاز بیاں تھی

بیتاب ہوا جاتا ہے دل ذکر سے اس کے
کیا پوچھتے ہو کون تھی وہ اور کہاں تھی

دنیائے تدبر میں تھی یکتائے زمانہ
ہاتھ اس کے تھے اور ان میں حکومت کی عناں تھی

دستور عدالت کے لئے اس کا قلم تھا
فرمان رعایا کے لئے اس کی زباں تھی

وہ شمع شب افروز تھی پروانہ جہانگیر
یہ بات بھی دونوں کی محبت سے عیاں تھی

لاہور میں دیکھا اسے مدفوں تہ مرقد
گرد کف پا جس کی کبھی کاہکشاں تھی

پیوند زمیں ہو گئے اب کون بتائے
کیفیؔ یہ جہانگیر تھا وہ نورجہاں تھی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse