نوجوان خاتون سے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نوجوان خاتون سے
by مجاز لکھنوی

حجاب فتنہ پرور اب اٹھا لیتی تو اچھا تھا
خود اپنے حسن کو پردا بنا لیتی تو اچھا تھا

تری نیچی نظر خود تیری عصمت کی محافظ ہے
تو اس نشتر کی تیزی آزما لیتی تو اچھا تھا

تری چین جبیں خود اک سزا قانون فطرت میں
اسی شمشیر سے کار سزا لیتی تو اچھا تھا

یہ تیرا زرد رخ یہ خشک لب یہ وہم یہ وحشت
تو اپنے سر سے یہ بادل ہٹا لیتی تو اچھا تھا

دل مجروح کو مجروح تر کرنے سے کیا حاصل
تو آنسو پونچھ کر اب مسکرا لیتی تو اچھا تھا

ترے زیر نگیں گھر ہو محل ہو قصر ہو کچھ ہو
میں یہ کہتا ہوں تو ارض و سما لیتی تو اچھا تھا

اگر خلوت میں تو نے سر اٹھایا بھی تو کیا حاصل
بھری محفل میں آکر سر جھکا لیتی تو اچھا تھا

ترے ماتھے کا ٹیکا مرد کی قسمت کا تارا ہے
اگر تو ساز بے داری اٹھا لیتی تو اچھا تھا

عیاں ہیں دشمنوں کے خنجروں پر خون کے دھبے
انہیں تو رنگ عارض سے ملا لیتی تو اچھا تھا

سنانیں کھینچ لی ہیں سرپھرے باغی جوانوں نے
تو سامان جراحت اب اٹھا لیتی تو اچھا تھا

ترے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن
تو اس آنچل سے اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse