نوجوانی کی دید کر لیجے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نوجوانی کی دید کر لیجے
by میر حسن دہلوی

نوجوانی کی دید کر لیجے
اپنے موسم کی عید کر لیجے

کون کہتا ہے کون سنتا ہے
اپنی گفت و شنید کر لیجے

اب کے بچھڑے ملوگے پھر کہ نہیں
کچھ تو وعدہ وعید کر لیجے

اپنے گیسو دراز کے مجھ کو
سلسلے میں مرید کر لیجے

ہے مثل ایک ناہ صد آسان
یاس ہی کو امید کر لیجے

ہاں عدم میں کہاں ہے عشق بتاں
اس کو یاں سے خرید کر لیجے

وصل تب ہو ادھر جب ایدھر سے
پہلے قطع و برید کر لیجے

قتل کیا بے گنہ کا مشکل ہے
چاہیئے جب شہید کر لیجے

اس کی الفت میں روتے روتے حسنؔ
یہ سیہ کو سپید کر لیجے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse