نوبت اپنی تو جان تک پہنچی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نوبت اپنی تو جان تک پہنچی
by جوشش عظیم آبادی

نوبت اپنی تو جان تک پہنچی
حیف اس کے نہ کان تک پہنچی

دل کے ٹکڑے ہیں یہ ستارے نہ ہوں
آہ لے آسمان تک پہنچی

ہے وہ آزردہ بات شکوے کی
کیا کسی مہربان تک پہنچی

مفت فرسودہ ہوئی یہ پیشانی
نہ ترے آستان تک پہنچی

دشمنی مجھ سے تیری تیغ نے کی
دوستی امتحان تک پہنچی

آتش عشق نے جو سر کھینچا
حسن کے دودمان تک پہنچی

بار غم جب کسی سے اٹھ نہ سکا
نوبت اس ناتوان تک پہنچی

تیرے مقتول کا ہے کام تمام
کارواں استخوان تک پہنچی

آتش گل سے جلتی مثل شرر
عندلیب آشیان تک پہنچی

کوئی سرگشتہ یاد آ ہی گیا
تیغ اس کی جو سان تک پہنچی

دیکھتے اس کو محو تھے ؔجوشش
کب شکایت زبان تک پہنچی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse