Jump to content

ننگی آوازیں

From Wikisource
ننگی آوازیں (1950)
by سعادت حسن منٹو
324955ننگی آوازیں1950سعادت حسن منٹو

بھولو اور گاما دو بھائی تھے۔ بے حد محنتی۔ بھولو قلعی گرتھا۔ صبح دھونکنی سر پر رکھ کر نکلتا اور دن بھر شہر کی گلیوں میں ’’بھانڈے قلعی کرالو‘‘ کی صدائیں لگاتا رہتا۔ شام کوگھر لوٹتا تو اس کے تہہ بند کی ڈب میں تین چار روپے کا کریانہ ضرور ہوتا۔

گاما خوانچہ فروش تھا۔ اس کو بھی دن بھر چھابڑی سر پر اٹھائے گھومنا پڑتا تھا۔ تین چار روپے یہ بھی کما لیتا تھا۔ مگر اس کو شراب کی لت تھی۔ شام کو دِینے کے بھٹیار خانے سے کھانا کھانے سے پہلے ایک پاؤ شراب اسے ضرور چاہیے تھی۔ پینے کے بعد وہ خوب چہکتا۔ دینے کے بھٹیار خانے میں رونق لگ جاتی۔ سب کو معلوم تھا کہ وہ پیتا ہے اور اسی کے سہارے جیتا ہے۔

بھولو نے گاما کو، جو کہ اس سے دو سال بڑا تھا بہت سمجھایا کہ دیکھو یہ شراب کی لت بہت بری ہے۔ شادی شدہ ہو، بیکار پیسہ برباد کرتے ہو۔ یہی جو تم ہر روز ایک پاؤ شراب پر خرچ کرتے ہو بچا کر رکھو تو بھابھی ٹھاٹ سے رہا کرے۔ ننگی بُچی اچھی لگتی ہے تمہیں اپنی گھر والی۔ گاما نے اس کان سنا اس کان سے نکال دیا۔ بھولو جب تھک ہار گیا تو اس نے کہنا سننا ہی چھوڑ دیا۔

دونوں مہاجر تھے۔ ایک بڑی بلڈنگ کے ساتھ سرونٹ کوارٹر تھے۔ ان پر جہاں اوروں نے قبضہ جما رکھا تھا، وہاں ان دونوں بھائیوں نے بھی ایک کوارٹر کو جو کہ دوسری منزل پر تھا اپنی رہائش کے لیے محفوظ کرلیا تھا۔ سردیاں آرام سے گزر گئیں۔ گرمیاں آئیں تو گاما کو بہت تکلیف ہوئی۔ بھولو تو اوپر کوٹھے پر کھاٹ بچھا کر سو جاتا تھا۔ گاما کیا کرتا۔ بیوی تھی اور اوپر پردے کا کوئی بندوبست ہی نہیں تھا۔ ایک گاما ہی کو یہ تکلیف نہیں تھی۔ کوارٹروں میں جو بھی شادی شدہ تھا اسی مصیبت میں گرفتار تھا۔

کلّن کو ایک بات سوجھی۔ اس نے کوٹھے پر کونے میں اپنی اور اپنی بیوی کی چارپائی کے اردگرد ٹاٹ تان دیا۔ اس طرح پردے کا انتظام ہوگیا۔ کلّن کی دیکھا دیکھی دوسروں نے بھی اس ترکیب سے کام لیا۔ بھولو نے بھائی کی مدد کی اور چند دنوں ہی میں بانس وغیرہ گاڑ کر ٹاٹ اور کمبل جوڑ کر پردے کا انتظام کردیا۔ یوں ہوا تو رک جاتی تھی مگر نیچے کوارٹر کے دوزخ سے ہر حالت میں یہ جگہ بہتر تھی۔

اوپر کوٹھے پر سونے سے بھولو کی طبیعت میں ایک عجیب انقلاب پیداہوگیا۔ وہ شادی بیاہ کا بالکل قائل نہیں تھا۔ اس نے دل میں عہد کر رکھا تھا کہ یہ جنجال کبھی نہیں پالے گا۔ جب گاما کبھی اس کے بیاہ کی بات چھیڑتا تو وہ کہا کرتا: نا بھائی، میں اپنے نِروئے پنڈے پر جونکیں نہیں لگوانا چاہتا۔ لیکن جب گرمیاں آئیں اور اس نے اوپر کھاٹ بچھا کر سونا شروع کیا تو دس پندرہ دن ہی میں اس کے خیالات بدل گئے۔ ایک شام کو دِینے کے بھٹیار خانے میں اس نے اپنے بھائی سے کہا،’’میری شادی کردو، نہیں تو میں پاگل ہو جاؤں گا۔‘‘

گاما نے جب یہ سنا تو اس نے کہا،’’یہ کیا مذاق سو جھا ہے تمہیں؟‘‘

بھولو بہت سنجیدہ ہوگیا، ’’تمہیں نہیں معلوم۔۔۔ پندرہ راتیں ہوگئی ہیں مجھے جاگتے ہوئے۔‘‘

گاما نے پوچھا، ’’کیوں کیاہوا؟‘‘

’’کچھ نہیں یار۔۔۔ دائیں بائیں جدھر نظر ڈالو کچھ نہ کچھ ہورہا ہوتا ہے۔۔۔ عجیب عجیب آوازیں آتی ہیں۔ نیند کیا آئے گی خاک!‘‘

گاما زور سے اپنی گھنی مونچھوں میں ہنسا۔ بھولو شرما گیا، ’’وہ جو کلن ہے، اس نے تو حد ہی کردی ہے۔۔۔ سالا رات بھر بکواس کرتا رہتا ہے۔ اس کی بیوی سالی کی زبان بھی تالو سے نہیں لگتی۔۔۔ بچے پڑے رو رہے ہیں مگر وہ۔۔۔‘‘

گاما حسبِ معمول نشے میں تھا۔ بھولو گیا تو اس نے دینے کے بھٹیار خانے میں اپنے سب واقف کاروں کو خوب چہک چہک کر بتایا کہ اس کے بھائی کو آج کل نیند نہیں آتی۔ اس کا باعث جب اس نے اپنے مخصوص انداز میں بیان کیا تو سننے والوں کے پیٹ میں ہنس ہنس کر بل پڑ گئے۔ جب یہ لوگ بھولو سے ملے تو اس کا خوب مذاق اڑایا۔ کوئی اس سے پوچھتا، ’’ہاں بھئی، کلن اپنی بیوی سے کیا باتیں کرتا ہے۔‘‘ کوئی کہتا، ’’میاں مفت میں مزے لیتے ہو۔۔۔ ساری رات فلمیں دیکھتے رہتے ہو۔۔۔ سو فیصدی گالی بولتی۔‘‘

بعضوں نے گندے گندے مذاق کیے۔ بھولو چڑ گیا۔ گاما صوفی حالت میں تھا تو اس نے اس سے کہا، ’’ تم نے تو یار میرا مذاق بنا دیا ہے۔۔۔ دیکھو جو کچھ میں نے تم سے کہا یہ جھوٹ نہیں۔ میں انسان ہوں۔ خدا کی قسم مجھے نیند نہیں آتی۔ آج بیس دن ہوگئے ہیں جاگتے ہوئے۔۔۔ تم میری شادی کا بندوبست کردو، ورنہ قسم پنچ تن پاک کی میرا خانہ خراب ہو جائے گا۔۔۔ بھابھی کے پاس میرا پانسو روپیہ جمع ہے۔۔۔ جلدی کردو بندوبست!‘‘ گاما نے مونچھ مروڑ کر پہلے کچھ سوچا پھر کہا،’’اچھا ہو جائے گا بندوبست۔ تمہاری بھابھی سے آج ہی بات کرتا ہوں کہ وہ اپنی ملنے والیوں سے پوچھ گچھ کرے۔‘‘

ڈیڑھ مہینے کے اندر اندر بات پکی ہوگئی۔ صمد قلعی گرکی لڑکی عائشہ گاما کی بیوی کو بہت پسند آئی۔ خوبصورت تھی۔ گھر کا کام کاج جانتی تھی۔ ویسے صمد بھی شریف تھا۔ محلے والے اس کی عزت کرتے تھے۔ بھولو محنتی تھی۔ تندرست تھا۔ جون کے وسطے میں شادی کی تاریخ مقرر ہوگئی۔ صمد نے بہت کہا کہ وہ لڑکی اتنی گرمیوں میں نہیں بیاہے گا مگر بھولو نے جب زور دیا تو وہ مان گیا۔

شادی سے چار دن پہلے بھولو نے اپنی دہن کے لیے اوپر کوٹھے پر ٹاٹ کے پردے کا بندوبست کیا۔ بانس بڑی مضبوطی سے فرش میں گاڑے۔ ٹاٹ خوب کر کس کر لگایا۔ چارپائیوں پر نئے کھیس بچھائے۔ نئی صراحی منڈیر پر رکھی،شیشے کا گلاس بازار سے خریدا۔ سب کام اس نے بڑے اہتمام سے کیے۔

رات کو جب وہ ٹاٹ کے پردے میں گھر کر سویا تو اس کو عجیب سا لگا وہ کھلی ہوا میں سونے کا عادی تھا مگر اب اس کو عادت ڈالنی تھی۔ یہی وجہ ہےکہ شادی سے چار دن پہلے ہی اس نے یوں سونا شروع کردیا۔ پہلی رات جب وہ لیٹا اور اس نے اپنی بیوی کے بارے میں سوچا تو وہ پسینے میں تربتر ہوگیا۔ اس کے کانوں میں وہ آوازیں گونجنے لگیں جو اسے سونے نہیں دیتی تھیں اور اس کے دماغ میں طرح طرح کے پریشان خیالات دوڑاتی تھیں۔کیا وہ بھی ایسی ہی آوازیں پیدا کرے گا۔۔۔؟ کیا آس پاس کے لوگ یہ آوازیں سنیں گے۔ کیا وہ بھی اسی کے مانند راتیں جاگ جاگ کر کاٹیں گے۔ کسی نے اگر جھانک کر دیکھ لیا تو کیا ہوگا؟

بھولو پہلے سے بھی زیادہ پریشان ہوگیا۔ ہر وقت اس کو یہی بات ستاتی رہتی کہ ٹاٹ کا پردہ بھی کوئی پردہ ہے، پھر چاروں طرف لوگ بکھرے پڑے ہیں۔ رات کی خاموشی میں ہلکی سی سرگوشی بھی دوسرے کانوں تک پہنچ جاتی ہے۔۔۔ لوگ کیسے یہ ننگی زندگی بسر کرتے ہیں۔۔۔ ایک کوٹھا ہے۔ اس چارپائی پر بیوی لیٹی ہے۔ اس چارپائی پر خاوند پڑا ہے۔ سیکڑوں آنکھیں، سیکڑوں کان آس پاس کھلے ہیں۔ نظر نہ آنے پر بھی آدمی سب کچھ دیکھ لیتا ہے۔ ہلکی سی آہٹ پوری تصویر بن کر سامنے آجاتی ہے۔۔۔ یہ ٹاٹ کا پردہ کیا ہے، سورج نکلتا ہے تو اس کی روشنی ساری چیزیں بے نقاب کردیتی ہے۔ وہ سامنے کلّن اپنی بیوی کی چھاتیاں دبا رہا ہے،وہ کونے میں اس کا بھائی گاما لیٹا ہے، تہہ بند کھل کر ایک طرف پڑا ہے۔ ادھر عیدو حلوائی کی کنواری بیٹی شاداں کا پیٹ چھدرے ٹاٹ سے جھانک جھانک کردیکھ رہا ہے۔

شادی کا دن آیا تو بھولو کا جی چاہا کہ وہ کہیں بھاگ جائے مگر کہاں جاتا۔ اب تو وہ جکڑا جا چکا تھا۔ غائب ہو جاتا تو صمد ضرور خود کشی کرلیتا۔ اس کی لڑکی پر جانے کیا گزرتی۔ جو طوفان مچتا وہ الگ۔

’’اچھا جو ہوتا ہے ہونے دو۔۔۔ میرے ساتھی اور بھی تو ہیں۔ آہستہ آہستہ عادت ہو جائے گی۔ مجھے بھی۔۔۔‘‘بھولو نے خود کو ڈھارس دی اور اپنی نئی نویلی دلہن کی ڈولی گھر لے آیا۔

کوارٹروں میں چہل پہل پیداہوگئی۔ لوگوں نے بھولو اور گاما کو خوب مبارک بادیں دیں۔ بھولو کے جو خاص دوست تھے، انھوں نے اس کو چھیڑا اور پہلی رات کے لیے کئی کامیاب گر بتائے۔ بھولو خاموشی سے سنتا رہا۔ اس کی بھابھی نے اوپر کوٹھے پر ٹاٹ کے پردوں کے پیچھے بستر کا بندوبست کردیا۔ گاما نے چار موتیے کے بڑے بڑے ہار تکیے کے پاس رکھ دیے۔ ایک دوست اس کے لیے جلیبیوں والا دودھ لے آیا۔

دیر تک وہ نیچے کوارٹر میں اپنی دلہن کے پاس بیٹھا رہا۔ وہ بے چاری شرم کی ماری، سر نیوڑھائے،گھونگٹ کاڑھے، سمٹی ہوئی تھی۔ سخت گرمی تھی۔ بھولو کا نیا کرتا اس کے جسم کے ساتھ چپکا ہوا تھا۔ پنکھا جھل رہا تھا مگر ہوا جیسے بالکل غائب ہی ہو گئی تھی۔ بھولو نے پہلے سوچا تھا کہ وہ اوپر کوٹھے پر نہیں جائے گا۔ نیچے کوارٹر ہی میں رات کاٹے گا مگر جب گرمی انتہا کو پہنچ گئی تو وہ اٹھا اور دلہن سے چلنے کو کہا۔

رات آدھی سے زیادہ گزر چکی تھی۔ تمام کوارٹر خاموشی میں لپٹے ہوئے تھے۔ بھولو کو اس بات کی تسکین تھی کہ سب سو رہے ہوں گے۔ کوئی اس کو نہیں دیکھے گا۔ چپ چاپ دبے قدموں سے وہ اپنے ٹاٹ کے پردے کے پیچھے اپنی دلہن سمیت داخل ہو جائےگا اور صبح منہ ادھیرے نیچے اتر جائے گا۔

جب وہ کوٹھے پر پہنچا تو بالکل خاموش تھی۔ دلہن نے شرمائے ہوئے قدم اٹھائے تو پازیب کے نقرئی گھنگھرو بجنے لگے۔ ایک دم بھولو نے محسوس کیا کہ چاروں طرف جو نیند بکھری ہوئی تھی چونک کر جاگ پڑی ہے۔ چارپائیوں پر لوگ کروٹیں بدلنے لگے، کھانسنے، کھنکارنے کی آوازیں اِدھر اُدھر ابھریں۔ دبی دبی سرگوشیاں اس تپی ہوئی فضا میں تیرنے لگیں۔ بھولو نے گھبرا کر اپنی بیوی کا ہاتھ پکڑا اور تیزی سے ٹاٹ کی اوٹ میں چلا گیا۔ دبی دبی ہنسی کی آواز اس کے کانوں کے ساتھ ٹکرائی۔ اس کی گھبراہٹ میں اضافہ ہوگیا۔ بیوی سے بات کی تو پاس ہی کُھسر پھسر شروع ہوگئی۔

دور کونے میں جہاں کلن کی جگہ تھی،وہاں چارپائی کی چرچوں چرچوں ہونے لگی، یہ دھیمی پڑی تو گاما کی لوہے کی چارپائی بولنے لگی۔۔۔ عیدد حلوائی کی کنواری لڑکی شاداں نے دو تین بار اٹھ کرپانی پیا۔ گھڑے کے ساتھ اس کا گلاس ٹکراتا تو ایک چھنا کا سا پیدا ہوتا۔ خیرے قصائی کے لڑکے کی چارپائی سے بار بار ماچس جلانے کی آواز آتی تھی۔

بھولو اپنی دلہن سے کوئی بات نہ کرسکا۔ اسے ڈر تھا کہ آس پاس کے کھلے ہوئے کان فوراً اس کی بات نگل جائیں گے۔ اور ساری چارپائیاں چرچوں چرچوں کرنے لگیں گی۔ دم سادھے وہ خاموش لیٹا رہا۔ کبھی کبھی سہمی ہوئی نگاہ سے اپنی بیوی کی طرف دیکھ لیتا جو گٹھری سی بنی دوسری چارپائی پر لیٹی تھی۔ کچھ دیر جاگتی رہی، پھر سو گئی۔بھولو نے چاہا کہ وہ بھی سو جائے مگر اس کو نیند نہ آئی۔ تھوڑے تھوڑے وقفوں کے بعد اس کے کانوں میں آوازیں آتی تھیں۔۔۔ آوازیں جو فوراً تصویر بن کر اس کی آنکھوں کے سامنے سے گزر جاتی تھیں۔

اس کے دل میں بڑے ولولے تھے، بڑا جوش تھا۔ جب اس نے شادی کا ارادہ کیا تھا تو وہ تمام لذتیں جن سے وہ نا آشنا تھا اس کے دل و دماغ میں چکر لگاتی رہتی تھیں۔ اس کو گرمی محسوس ہوتی تھی، بڑی راحت بخش گرمی۔مگر اب جیسے پہلی رات سے کوئی دلچسپی ہی نہیں تھی۔ اس نے رات میں کئی بار یہ دلچسپی پیدا کرنے کی کوشش کی مگر آوازیں۔۔۔ وہ تصویریں کھینچنے والی آوازیں سب کچھ درہم برہم کردیتیں۔ وہ خود کو ننگا محسوس کرتا، الف ننگا، جس کو چاروں طرف سے لوگ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہے ہیں اور ہنس رہے ہیں۔

صبح چار بجے کے قریب وہ اٹھا، باہر نکل کر اس نے ٹھنڈے پانی کا ایک گلاس پیا، کچھ سوچا،وہ جھجک جو اس کے دل میں بیٹھ گئی تھی اس کو کسی قدر دور کیا۔ اب ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی جو کافی تیز تھی۔۔۔ بھولو کی نگاہیں کونے کی طرف مڑیں۔کلّن کا گھسا ہوا ٹاٹ ہل رہا تھا۔ وہ اپنی بیوی کے ساتھ بالکل ننگ دھڑنگ لیٹا تھا۔ بھولو کو بڑی گھن آئی،ساتھ ہی غصہ بھی آیا کہ ہوا ایسے کوٹھوں پر کیوں چلتی ہے ؟چلتی ہے تو ٹاٹوں کو کیوں چھیڑتی ہے؟اس کے جی میں آئی کہ کوٹھے پر جتنے ٹاٹ ہیں، سب نوچ ڈالے اور ننگا ہو کے ناچنے لگے۔

بھولو نیچے اتر گیا۔ جب کام پر نکلا تو کئی دوست ملے۔ سب نے اس سے پہلی رات کی سرگزشت پوچھی۔پھوجے درزی نے اس کو دور ہی سے آواز دی، ’’کیوں استاد بھولو، کیسے رہے، کہیں ہمارے نام پر بٹہ تو نہیں لگا دیا تم نے؟‘‘ چھاگے ٹین ساز نے اس سے بڑے راز دارانہ لہجے میں کہا،’’دیکھو اگر کوئی گڑ بڑ ہے تو بتا دو۔ ایک بڑا اچھا نسخہ میرے پاس موجود ہے۔‘‘ بالے نے اس کے کاندھے پر زور سے دھپا مارا،’’کیوں پہلوان، کیسا رہا دنگل؟‘‘

بھولو خاموش رہا۔

صبح اس کی بیوی میکے چلی گئی۔ پانچ چھ روز کے بعد واپس آئی تو بھولو کو پھر اسی مصیبت کا سامنا کرنا پڑا۔ کوٹھے پر سونے والے جیسے اس کی بیوی کی آمد کے منتظر تھے۔ چند راتیں خاموش رہی تھی لیکن جب وہ اوپر سوئے تو وہی کھسر پھسر وہی چرچوں چرچوں، وہی کھانسنا کھنکارنا۔۔۔ وہی گھڑے کے ساتھ گلاس کے ٹکرانے کے چھناکے۔۔۔ کروٹوں پر کروٹیں، دبی دبی ہنسی۔۔۔ بھولو ساری رات اپنی چارپائی پر لیٹا آسمان کی طرف دیکھتا رہا۔ کبھی کبھی ایک ٹھنڈی آہ بھر کر اپنی دلہن کو دیکھ لیتا اور دل میں کڑھتا، ’’مجھے کیا ہوگیا ہے۔۔۔ یہ مجھے کیا ہوگیا ہے۔۔۔ یہ مجھے کیا ہوگیاہے۔‘‘سات راتوں تک یہی ہوتا رہا، آخر تنگ آکر بھولو نے اپنی دلہن کو میکے بھیج دیا۔بیس پچیس دن گزر گئے تو گاما نے بھولو سے کہا، ’’یار تم بڑے عجیب و غریب آدمی ہو نئی نئی شادی اور بیوی کو میکے بھیج دیا۔ اتنے دن ہوگئے ہیں اسے گئے ہوئے، تم اکیلے سوتے کیسے ہو؟‘‘

بھولو نے صرف اتنا کہا، ’’ٹھیک ہے۔‘‘

گاما نے پوچھا، ’’ٹھیک کیا ہے۔۔۔ جو بات ہے بتاؤ۔ کیا تمہیں پسند نہیں آئی عائشہ؟‘‘

’’یہ بات نہیں ہے۔‘‘

’’یہ بات نہیں ہے تو اور کیا ہے؟‘‘

بھولو بات گول کرگیا۔ تھوڑے ہی دنوں کے بعد اس کے بھائی نے پھر بات چھیڑی۔ بھولو اٹھ کر کوارٹر کے باہر چلا گیا۔ چارپائی پڑی تھی اس پر بیٹھ گیا۔ اندر سے اس کو اپنی بھابھی کی آواز سنائی دی۔ وہ گاما سے کہہ رہی تھی،’’تم جو کہتے ہو نا کہ بھولو کو عائشہ پسند نہیں، یہ غلط ہے۔‘‘

گاما کی آواز آئی،’’ تو اور کیا بات ہے۔۔۔ بھولو کو اس سے کوئی دلچسپی ہی نہیں۔‘‘

’’ دلچسپی کیا ہو۔‘‘

’’کیوں؟‘‘

گاما کی بیوی کا جواب بھولو نہ سن سکا مگر اس کے باوجود اس کو ایسا محسوس ہواکہ اس کی ساری ہستی کسی نے ہاون میں ڈال کر کوٹ دی ہے۔ ایک دم گاما اونچی آواز میں بولا، ’’نہیں نہیں۔۔۔ یہ تم سے کس نے کہا؟‘‘

گاما کی بیوی بولی، ’’عائشہ نے اپنی کسی سہیلی سے ذکر کیا۔۔۔ بات اڑتی اڑتی مجھ تک پہنچ گئی۔‘‘

بڑی صدمہ زدہ آواز میں گاما نے کہا، ’’یہ تو بہت برا ہوا!‘‘

بھولو کے دل میں چھری سی پیوست ہوگئی۔ اس کا دماغی توازن بگڑ گیا۔ اٹھا اور کوٹھے پرچڑھ کر جتنے ٹاٹ گئے تھے اکھیڑنے شروع کردیے۔ کھٹ کھٹ پھٹ پھٹ سن کر لوگ جمع ہوگئے۔ انھوں نے اس کو روکنے کی کوشش کی تو وہ لڑنے لگا۔ بات بڑھ گئی۔ کلن نے بانس اٹھا کر اس کے سر پر دے مارا۔ بھولو چکرا کرگرا اور بے ہوش ہوگیا۔ جب ہوش آیا تو اس کا دماغ چل چکا تھا۔

اب وہ الف ننگا، بازاروں میں گھومتا پھرتا ہے؛ کہیں ٹاٹ لٹکا دیکھتا ہے تو اس کو اتار کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے۔


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.