نقش قدم ہوا ہوں محبت کی راہ کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نقش قدم ہوا ہوں محبت کی راہ کا
by سراج اورنگ آبادی
331964نقش قدم ہوا ہوں محبت کی راہ کاسراج اورنگ آبادی

نقش قدم ہوا ہوں محبت کی راہ کا
کیا دل کشا مکاں ہے مری سجدہ گاہ کا

گرمی سیں آفتاب قیامت کی کیوں دروں
سایہ ہے مجھ کوں سرو قیامت پناہ کا

ناسور ہو کہ روز قیامت تلک بہے
جس کے جگر میں تیر لگے تجھ نگاہ کا

پیو کا جمال دیکھ ہوا چاک چاک دل
جیوں کہ کتاں پہ عکس پڑے نور ماہ کا

ڈورے نہیں ہیں سرخ تری چشم مست میں
شاید چڑھا ہے خون کسی بے گناہ کا

دل تجھ برہ کی آگ سیں کیونکر نکل سکے
شعلہ سیں کیا چلے گا کہو برگ کاہ کا

سنبل ہے جیوں کہ جلوہ نما جوئبار پر
آنکھوں میں میری عکس دو زلف سیاہ کا

مہتاب رو کے رخ پہ سیہ خط نہیں سراجؔ
جا کر کھلا ہوا ہے مرے دود آہ کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse