نقش دل ہے ستم جدائی کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نقش دل ہے ستم جدائی کا
by عبد الغفور نساخ

نقش دل ہے ستم جدائی کا
شوق پھر کس کو آشنائی کا

چکھتے ہیں اب مزا جدائی کا
یہ نتیجہ ہے آشنائی کا

ان کے دل کی کدورت اور بڑھی
ذکر کیجیے اگر صفائی کا

دیکھ تو سنگ آستاں پہ ترے
ہے نشاں کس کی جبہہ سائی کا

تیرے در کا گدا جو ہے اے دوست
عیش کرتا ہے بادشائی کا

دختر رز نے کر دیا باطل
مجھ کو دعویٰ تھا پارسائی کا

کرتے ہیں اہل آسماں چرچا
میرے نالوں کی نارسائی کا

کاٹ ڈالو اگر زباں پہ مرے
حرف آیا ہو آشنائی کا

کر کے صدقے نہ چھوڑ دیں نساخؔ
دل کو دھڑکا ہے کیوں رہائی کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse