نفس سرکش کو قتل کر اے دل

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نفس سرکش کو قتل کر اے دل
by امداد علی بحر

نفس سرکش کو قتل کر اے دل
مستعد ہو جہاد پر اے دل

نہ پھلے گی تجارت دنیا
ہے یہاں نفع میں ضرر اے دل

تیرے کردار پر ہیں شاہد حال
خشک لب اور چشم تر اے دل

نہ رو الفت نہ ہاتھ سے جائے
کھیل جا اپنی جان پر اے دل

چاہیے بے محل نہ ٹپکے اشک
ابروؤں پر رہے نظر اے دل

بے خودی میں نکل چلا ہے کدھر
بھول جانا نہ اپنا گھر اے دل

کوئے جاناں ہے مقتل عشاق
لے چلا ہے مجھے کدھر اے دل

جان جانی ہے تجھ کو ہوش نہیں
تو بھی کتنا ہے بے خبر اے دل

عشق بازی ہے آبرو ریزی
اپنے فعلوں سے درگزر اے دل

کیوں نکل کر ذلیل ہوتی ہے
تیری فریاد بے اثر اے دل

دھیان آٹھوں پہر اسی کا ہے
کبھی اپنی بھی لی خبر اے دل

عشق کے معرکے میں مار قدم
فتح ہے تیرے نام پر اے دل

اشک ہو کر بہا کہ خون ہوا
کیا ہوئی حالت جگر اے دل

غم عالم ہے تیرے حصے میں
تو بھی کیا ہے نصیب ور اے دل

تو اگر آگ ہے وہ پانی ہے
بحرؔ کے شر سے خوف کر اے دل

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse