نفرت ہے حرف وصل سے اچھا یوہیں سہی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نفرت ہے حرف وصل سے اچھا یوہیں سہی
by داغ دہلوی

نفرت ہے حرف وصل سے اچھا یوہیں سہی
لو آؤ اور بات سنو وہ نہیں سہی

چھوڑوں گا میں نہ ہاتھ چلے آؤ ساتھ ساتھ
نازک کلائی دکھتی ہے تو آستیں سہی

مشق جفا کے واسطے کس کی تلاش ہے
کوئی اگر نہیں ہے تو یہ کمتریں سہی

اقرار کر کے گھورتے ہو کیوں مری طرف
باور سہی یقین سہی دل نشیں سہی

بیداد کر کے چاہتے ہو پھر جفا کی داد
بہتر بجا درست صحیح آفریں سہی

سجدے ہی کرتے جائیں گے ہم تیری راہ میں
ہے نقش پا سے عار تو نقش جبیں سہی

بے دل لگی بھی داغؔ گزرنی محال ہے
وہ دل نہیں سہی وہ تمنا نہیں سہی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse