Jump to content

نغمۂ دل سوز

From Wikisource
نغمۂ دل سوز (1933)
by راج بہادر سکسینہ اوجؔ
324366نغمۂ دل سوز1933راج بہادر سکسینہ اوجؔ

ہے مزاج اس وقت کچھ بگڑا ہوا صیاد کا
اے اسیران قفس موقع نہیں فریاد کا

کتنا درد آمیز تھا نغمہ دل ناشاد کا
تیر ترکش میں تڑپ اٹھا ستم ایجاد کا

داستان‌ عالم فرقت کسی سے کیا کہیں
ہو گیا برباد ہر ذرہ دل ناشاد کا

آپ کو ملنا نہیں منظور لو مرتا ہوں میں
منتظر بیٹھا ہوا تھا آپ کے ارشاد کا

اے دل ناشاد مجھ کو تیری وحشت دیکھ کر
یاد آ جاتا ہے قصہ قیس اور فرہاد کا

آئے وہ بہر عیادت ڈال کر رخ پر نقاب
رہ گیا ارمان دل میں عاشق ناشاد کا

آپ فرماتے ہیں تو نے رات کو نالے کئے
بندہ پرور اوجؔ تو عادی نہیں فریاد کا


This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries).