نعرۂ حق

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نعرۂ حق
by احمق پھپھوندوی

جفا شعار ستم کیش حریت دشمن
ڈرا رہا ہے تو آنکھیں یہ کیا دکھا کے مجھے
مرے قدم کو ہو جنبش یہ غیر ممکن ہے
پیام شوق سے دے درد و ابتلا کے مجھے
کوئی مجھے رہ حق سے ہٹا نہیں سکتا
اگر یقین نہ ہو دیکھ لے ہٹا کے مجھے
زباں پہ کلمۂ حق کے سوا جو حرف آ جائے
تو پھونک دے مری غیرت ابھی جلا کے مجھے
ہے آشنا مرے کام و دہن سے تلخئ غم
یہ زہر دیکھ لے سو مرتبہ پلا کے مجھے
ہے میرے واسطے معراج روح تختۂ دار
تو خوش اگر ہے تو ہو دار پر چڑھا کے مجھے
فنا ہے میرے لئے مژدۂ بقائے دوام
سنا رہا ہے تو احکام کیا قضا کے مجھے
سوا خدا کے کسی سے میں دب نہیں سکتا
نہ رکھ سکے گا تو ہرگز کبھی دبا کے مجھے
ترے خیال میں گر ہوں میں قابل تسخیر
تو دیکھ لے غم و آلام میں پھنسا کے مجھے
مری طرف سے اجازت ہے تجھ کو عام اس کی
کہ دے سکے تو غم و رنج انتہا کے مجھے
خوشی کے ساتھ ہوں راضی ہر ابتلا کے لئے
تو منتخب مجھے کر تو سہی جفا کے لئے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse