نظم اتحاد

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نظم اتحاد
by میرزا الطاف حسین عالم لکھنوی

فصل بہار آئی مگر ہم ہیں اور غم
ہر سمت سے ہیں گھیرے ہوئے صدمہ و الم
آئی نہ اف زباں پہ ستم پر ہوئے ستم
کیا امتحاں کے واسطے ٹھہرے ہیں صرف ہم
جب اپنی قوتوں پہ بھروسا نہیں رہا
بہتر ہے پھر جہاں سے اٹھا لے ہمیں خدا
اس عمر چند روزہ میں کی لاکھ جستجو
چھانی ہے ہم نے خاک زمانے میں کو بہ کو
شکوہ عدو کا کیا ہے جب احباب ہیں عدو
جینے کی اک سیکنڈ نہیں اب تو آرزو
ہم نے سمجھ لیا کہ جہاں سے گزر گئے
جب دل ہی مر گیا تو سب ارمان مر گئے
ہم پر گرائیں چرخ نے اس حد پہ بجلیاں
دم بھر میں جل کے خاک ہوئیں ساری استخواں
چلتی رہیں ہوائے مخالف کی آندھیاں
آتا نہیں سمجھ میں کہ جا کر چھپیں کہاں
زیر زمیں بھی چین کی امید اب نہیں
پھر کیا ہے یہ بتا دے کوئی گر غضب نہیں
مکر و فریب سے جو کریں زندگی بسر
سو جاں ہزار دل سے ہو قربان ہر بشر
دن رات ہم ہوں اور ہوں احباب خیرہ سر
ایمان داریوں میں کٹی زندگی اگر
ہر ایک کی نگاہ میں بس خار ہو گئے
بے سونچے سمجھے مستحق دار ہو گئے
دعویٰ تو یہ ہے ہم بھی مسلمان ہیں ضرور
کلمہ جو پوچھیے تو نہیں یاد ہے حضور
کیا غم اگر شکستہ عزیزوں کے ہیں قبور
تیرا یہ اس پہ حد سے زیادہ ہے کچھ غرور
میلوں کے واسطے جو طلب ہو تو خوب دیں
قومی جو کوئی کام ہو تو نام بھی نہ لیں
پوچھا اگر عبادت خالق ہے کوئی چیز
فرمایا دل میں یہ تو نہایت ہے بد تمیز
عیاشیاں جو کیجیئے تو آپ ہیں عزیز
اے قوم کاہلی ہے تری گھر کی اب کنیز
اچھی بری کا جب تو نہیں امتیاز ہے
بے مائیگی پر اپنی فقط تجھ کو ناز ہے
ہشیار کوئی لاکھ کرے تو ہے بے خبر
اس درجہ بے حیا کہ نہیں دل پہ کچھ اثر
نازاں ہیں صرف باپ کے دادا کے نام پر
قرضے میں ہو رہی ہے مگر زندگی بسر
دیکھو تو غیر ہنستے ہیں ہشیار ہو ذرا
للہ اب تو خواب سے بیدار ہو ذرا
پھولو پھلو الٰہی رہو شاد سر بسر
ہو نخل اتحاد ہمیشہ یہ بارور
وہ دن خدا دکھائے کہ لے آئے یہ ثمر
آنا ہے تم کو منزل مقصود تک اگر
ڈالی ہے اتحاد کی تم نے جو داغ بیل
ہمت نہ ہارو جان کے بچوں کا ایک کھیل
دیکھو تو اور قوموں میں کیا اتحاد ہے
دولت سے اور علم سے ہر ایک شاد ہے
تم میں بھی آج ایسا کوئی خوش نہاد ہے
محمود کا یہ قول ہمیں اب تو یاد ہے
دو دن رہے جو آ کے جہاں میں تو کھل گئے
آخر کو مثل خار چمن سے نکل گئے
اے ساکنان موضع جگور السلام
دنیا ہے آج تم کو ہر اک بات کا پیام
اب تو نکالو اپنی دلوں سے خیال خام
اچھا نہیں جو غیر کے بن جاؤ تم غلام
اچھی نصیحتوں پہ عمل پھر ضرور ہے
کوئی نہ یہ کہے کہ سراسر قصور ہے
اپنے امور میں نہ کرو غیر کو شریک
شر کو نہ ڈھونڈھو اور کرو خیر کو شریک
اچھے نہیں سفر جو کریں سیر کو شریک
کعبہ کے ذکر میں نہ کرو دیر کو شریک
تم خود رہے ہو صاحب اقبال دہر میں
کیوں ڈھونڈتے ہو ذائقہ شہد زہر میں
اخلاق کا چراغ بجھانا نہ چاہئے
ظلمت کدہ میں غیر کے جانا نہ چاہئے
سچی نصیحتوں کو بھلانا نہ چاہئے
تم کو کسی فریب میں آنا نہ چاہئے
اللہ کے بھروسہ پہ ہر کام تم کرو
دشمن بھی جس کو مان لیں وہ نام تم کرو

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse