نظم
Appearance
جھلکا جھلکا سپیدۂ صبح
جھلکا جھلکا سپیدۂ صبح
تارے چھپتے ہیں جھلملا کر
ہے نور سا جلوہ گر فلک پر
بھینی بھینی مہک گلوں کی
اور نغمہ زنی وہ بلبلوں کی
وقت صحرا اور تنگ ہوا ہے
بے مے سب کرکرا مزا ہے
اک چلو کے دینے میں یہ تکرار
اٹھو جاگو سحر ہوئی یار
دریا کی طرف چلے نہانے
غٹ پریوں کے زنان خانے
مرغان چمن یہ نکتہ رانی
چوں برہمنان یہ بید خوانی
نوبت رنگت جمنا رہی ہے
شہنشائے مزہ دکھا رہی ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |