نظر ملا کے مرے پاس آ کے لوٹ لیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نظر ملا کے مرے پاس آ کے لوٹ لیا
by جگر مراد آبادی

نظر ملا کے مرے پاس آ کے لوٹ لیا
نظر ہٹی تھی کہ پھر مسکرا کے لوٹ لیا

شکست حسن کا جلوہ دکھا کے لوٹ لیا
نگاہ نیچی کئے سر جھکا کے لوٹ لیا

دہائی ہے مرے اللہ کی دہائی ہے
کسی نے مجھ سے بھی مجھ کو چھپا کے لوٹ لیا

سلام اس پہ کہ جس نے اٹھا کے پردۂ دل
مجھی میں رہ کے مجھی میں سما کے لوٹ لیا

انہیں کے دل سے کوئی اس کی عظمتیں پوچھے
وہ ایک دل جسے سب کچھ لٹا کے لوٹ لیا

یہاں تو خود تری ہستی ہے عشق کو درکار
وہ اور ہوں گے جنہیں مسکرا کے لوٹ لیا

خوشا وہ جان جسے دی گئی امانت عشق
رہے وہ دل جسے اپنا بنا کے لوٹ لیا

نگاہ ڈال دی جس پر حسین آنکھوں نے
اسے بھی حسن مجسم بنا کے لوٹ لیا

بڑے وہ آئے دل و جاں کے لوٹنے والے
نظر سے چھیڑ دیا گدگدا کے لوٹ لیا

رہا خراب محبت ہی وہ جسے تو نے
خود اپنا درد محبت دکھا کے لوٹ لیا

کوئی یہ لوٹ تو دیکھے کہ اس نے جب چاہا
تمام ہستی دل کو جگا کے لوٹ لیا

کرشما سازی حسن ازل ارے توبہ
مرا ہی آئینہ مجھ کو دکھا کے لوٹ لیا

نہ لٹتے ہم مگر ان مست انکھڑیوں نے جگرؔ
نظر بچاتے ہوئے ڈبڈبا کے لوٹ لیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse