نظر اس چشم پہ ہے جام لیے بیٹھا ہوں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نظر اس چشم پہ ہے جام لیے بیٹھا ہوں
by آرزو لکھنوی

نظر اس چشم پہ ہے جام لیے بیٹھا ہوں
ہے نہ پینے کا یہ مطلب کہ پیے بیٹھا ہوں

رخنہ اندازئ اندوہ سے غافل نہیں میں
ہے جگر چاک تو کیا ہونٹ سیے بیٹھا ہوں

کیا کروں دل کو جو لینے نہیں دیتا ہے قرار
جو مقدر نے دیا ہے وہ لیے بیٹھا ہوں

التفات اے نگہ ہوشربا اب کیوں ہے
پاس جو کچھ تھا وہ پہلے سے دیے بیٹھا ہوں

دل پر کیف سلامت کہ اکیلے میں بھی
ایک بوتل سے بغل گرم کیے بیٹھا ہوں

آرزوؔ جلتے ہوئے دل کے شرارے ہیں یہ اشک
آگ پانی کے کٹوروں میں لیے بیٹھا ہوں

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse