نظر آئے کیا مجھ سے فانی کی صورت

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نظر آئے کیا مجھ سے فانی کی صورت
by انور دہلوی

نظر آئے کیا مجھ سے فانی کی صورت
کہ پنہاں ہوں درد نہانی کی صورت

بنا ہوں وہ میں ناتوانی کی صورت
غضب ہی کھچی بے نشانی کی صورت

خموشی جو ہے اقتضائے طبیعت
تو ان کو ملی بے دہانی کی صورت

نظر آئے کیا جلوۂ حسن باقی
کہ پردہ ہے دنیائے فانی کی صورت

تم اور ذکر اغیار پر چپ رہو گے
کہے دیتی ہے بے دہانی کی صورت

ہمارے گلے پر تو چلتی دکھاؤ
کہاں تیغ میں ہے روانی کی صورت

قیام اپنا اس کوچہ میں پا بگل ہے
ملے خاک میں ہم تو پانی کی صورت

گداز دل تشنہ کا ماں غضب ہے
وہ خنجر نہ بہہ جائے پانی کی صورت

برابر ہے یہاں بود و نابود اپنی
نشاں ہے مرا بے نشانی کی صورت

عرق شرم سے خاکساری میں ہوں میں
ہوا خاک بھی میں تو پانی کی صورت

جو پوچھو تو اس چشم کا دیکھنا ہے
وہ ہے گردش آسمانی کی صورت

ڈبویا مجھے آب میں شرم سے وہ
کھڑے ہیں مرے سر پہ پانی کی صورت

نمود اپنی واقع میں کچھ بھی نہیں ہے
یہاں خواب ہے زندگانی کی صورت

وہ دل رونمائی میں لیتے ہیں پہلے
دکھاتے ہیں جب جاں ستانی کی صورت

مجھے کشتہ دیکھا تو قاتل نے پوچھا
یقیں ہے یہاں بد گمانی کی صورت

پڑے مر کے مٹنے کو ہم ٹھوکروں میں
مگر کٹ گئی زندگانی کی صورت

زباں پر ہے قاصد کی اپنی رسائی
ہوا ہوں پیام زبانی کی صورت

مجسم ہی موہوم آنے میں ان کے
نظر آتی ہے زندگانی کی صورت

ترے وعدے پر زیست ہے مرگ اپنی
بہت ہی بڑھی ناتوانی کی صورت

وہ اس شکل سے میری بالیں پہ آئے
کہ اک آفت آسمانی کی صورت

نظر بن کے پھرتی ہے آنکھوں میں اپنی
کسی عالم نوجوانی کی صورت

نہ ہو رشک تو کیجیے وہاں مدح‌ دشمن
کہ ہے یار کی راز دانی کی صورت

مجھے دیکھو اور اس کے وعدے پہ جینا
یہ ہے زندۂ جاودانی کی صورت

وہاں بد گمانی کی تعریف کیا ہو
یقیں ہو جہاں بد گمانی کی صورت

نظر سوز وہ رخ وہ انکار بے حد
مگر ہیں وہ اک لن ترانی کی صورت

دکھاتے ہیں وہ رخ سے یوں ناز پنہاں
کہ الفاظ جیسے معانی کی صورت

یہاں کیا سمائی دم تیغ قاتل
کہ نظروں میں ہے سخت جانی کی صورت

جو نقش فنا ہوں تو وہ دل پہ انورؔ
کھنچی اور اک بد گمانی کی صورت

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse