Jump to content

نظارے ہوئے ہیں اشارے ہوئے ہیں

From Wikisource
نظارے ہوئے ہیں اشارے ہوئے ہیں
by عزیز الحسن غوری
319701نظارے ہوئے ہیں اشارے ہوئے ہیںعزیز الحسن غوری

نظارے ہوئے ہیں اشارے ہوئے ہیں
ہم ان کے ہوئے وہ ہمارے ہوئے ہیں

ہمیں تو بھلے لگتے ہیں اور بھی اب
وہ زیور کو اپنے اتارے ہوئے ہیں

نہیں پاس کچھ ایک دل ہے سو وہ بھی
قمار محبت میں ہارے ہوئے ہیں

مزے وصل میں جو اٹھائے تھے اے دل
جدائی میں اب وہ ہی آرے ہوئے ہیں

ہمیں ہوش ہے اب کہاں تن بدن کا
کہ مجذوبؔ ان کے پکارے ہوئے ہیں


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.