نظارۂ رخ ساقی سے مجھ کو مستی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نظارۂ رخ ساقی سے مجھ کو مستی ہے
by گویا فقیر محمد

نظارۂ رخ ساقی سے مجھ کو مستی ہے
یہ آفتاب پرستی بھی مے پرستی ہے

خدا کو بھول گیا محو خود پرستی ہے
تو اور کام میں ہے موت تجھ پہ ہستی ہے

نہ گل ہیں اب نہ وہ ساقی نہ مے پرستی ہے
چمن میں مینہ کے عوض بے کسی برستی ہے

یہ ملک حسن بھی جاناں عجیب بستی ہے
کہ دل سی چیز یہاں کوڑیوں سے سستی ہے

مہ صیام میں گو منع مے پرستی ہے
مگر ہوں مست کہ ہر روز فاقہ مستی ہے

یہ بے ثبات بہار ریاض ہستی ہے
کلی جو چٹکی تو ہستی پر اپنی ہنستی ہے

بس ایک رات کا مہمان چراغ ہستی ہے
سرہانے روئے گی اب شمع گور ہنستی ہے

دلا یہ گور غریباں بھی زور بستی ہے
بجائے ابر یہاں بے کسی برستی ہے

گیا جو یاں سے تہ خاک وہ کبھی نہ پھرا
زمین کے نیچے بھی دلچسپ کوئی بستی ہے

نہا کے بال نچوڑے تو یار کہنے لگا
گھٹا سیاہ اسی طرح سے برستی ہے

بس ایک ہاتھ میں دو ٹکڑے کر دیا ہم کو
ہمارے یار کی اک یہ بھی تیز دستی ہے

کیا ہے چاک گریبان صبح محشر تک
یہ اپنے جوش جنوں کی دراز دستی ہے

ہمیں تو قتل کیا بس اسی نزاکت نے
کہ وہ اٹھاتی ہیں تیغ اور نہیں اکستی ہے

دکھا کے پھول سے چہرے کو دل لیا خوش ہو
جو بدلے گل کے ملے عندلیب سستی ہے

اب ایک توبہ پہ آتی ہے مغفرت ترے ہاتھ
خرید کر کہ نہایت یہ جنس سستی ہے

دکھائے جس نے یہ صورت ہمیں دم آخر
اسی کو دیکھنے کو روح اب ترستی ہے

نہ ٹوٹی شیشۂ مے میری سنگ مرقد سے
پس از فنا بھی مجھے پاس مے پرستی ہے

اسیر کر کے ہمیں خوش نہ ہوئیو صیاد
کہ تو بھی یاں تو گرفتار دام ہستی ہے

عجب نہیں دم عیسیٰ سے بھی جو گل ہو جاتے
کہ شمع صبح ہمارا چراغ ہستی ہے

وہ مانگتا ہے مری جان رونمائی میں
یہی جو مول ہے تو جنس حسن سستی ہے

کیا ہے اس نے تو یوسف کا چاک دامن پاک
نہ پوچھو عشق کی جو کچھ دراز دستی ہے

کہوں میں وہی ہے ساقی وہی سبو وہی جام
مدام بادۂ وحدت کی مجھ کو مستی ہے

علم ہے تیغ دو دم تیرے سر جھکائے ہوں میں
تری گلی میں بھی ظالم بلندی پستی ہے

جو چاہے رحمت حق عجز کر شعار اپنا
رواں ادھر کو ہے پانی جدھر کو پستی ہے

سفید ہو گئی موئے سیاہ غفلت چھوڑ
ہوئی ہے صبح کوئی دم چراغ ہستی ہے

ہر اک جوان کا قد خم ہوا ہے پیری سے
مآل کار بلندی جہاں میں پستی ہے

وہ اپنی جنبش ابرو دکھا کے کہتا ہے
یہ وہ ہے تیغ اشاروں ہی سے جو کستی ہے

چہ خوش بود کہ بر آید بیک کرشمہ دو کار
صنم بغل میں ہے دل محو حق پرستی ہے

ہے خوب پہلے سے گویاؔ کروں میں ترک سخن
کہ ایک دم میں یہ خاموش شمع ہستی ہے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.