نشے کی پہلی ترنگ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نشے کی پہلی ترنگ
by سجاد حیدر یلدرم

جوان! بیس سال کا جوان ہے۔ وہ گردبادِحیات ، تاثراتِ روحانیہ، مرأتِ وجدان کن کو کہتے ہیں، اس سے بالکل بے خبرہے۔ حظوظات نفسانیہ میں شدت سے منہمک اور ہوا و ہوس سے مغلوب! جہاں بزم عیش دیکھی ادھر ہی کو دوڑنا، کہیں آہنگ طرب سنا، اسی میں شریک ہونا، جہاں معلوم ہوا کہ کوئی مجلس مستانہ ہے، وہیں کے ہو لیے مگر شراب نہیں پیتا اور اسے آب زہر ناک تصور کرتا ہے۔ صرف سوسائٹی اور یاران جلسہ میں رہنے کا بہت شوق ہے اور کھانے کا تو دشمن ہے۔ رکابی میں کسی چیز کو چھوڑنا نہیں چاہتا۔ہر دلعزیز ہونے کی بہت خواہش ہے اور ہر شخص کے ساتھ ملاطفت سے پیش آنا چاہتا ہے۔ غرض کہ بزم آراء شوق افزا ہے۔

ناتجربہ کاری اور بے فکری کے خیالات رات دن اس کی خدمت میں فخر کے ساتھ حاضر رہتے ہیں۔ اس میں تعجب کیا ہے؟ جوانوں کے لیے دل لگی چاہیے! وہ بھی اپنا دل بہلاتا ہے۔ وہ بھی روایت پرور افکار کا محکوم ہے۔ کچہری ہفتہ میں دو تین دن جاتا ہے باقی تمام وقت لایعنی اشغال میں صرف کرتا ہے۔ دن بھر میں سو سو محلوں کے چکر لگاتا ہے اور ہر جگہ ایک محبوبہ سودا انتمار رکھتا ہے۔

خوش ہے! حیات کے مسائل مہمہ میں سے ایک بھی اسے اپنی طرف نہیں کھینچتا۔ اندیشہ و اضطراب کے اسباب مہلکہ سے بری ہے، مستقبل زمانہ کا ذرا بھی خیال نہیں کرتا۔ حال میں اپنی عمر کو ایک آہنگ ِ عاشقانہ کے ساتھ گزارتا ہے، کھاتا ہے ، پیتا ہے اور پہنتا ہے، معیشت نے اس آوارہ مزاج پر اپنا دست تغلب نہیں ڈالا۔ اپنے خیال میں وہ گویا اس سوچ میں ہے کہ حیات مسعودانہ کب اور کس طرح منتظم کرے!

محاکمات فکریہ اور مناقشات وجدانیہ کو محکوم تعب اور آرام سوز سمجھ کر ان سے کلیتہً مجتنب ہے۔ ہفتے یکے بعد دیگرے گزر جاتے ہیں اور وہ گھر میں نہیں آتا۔ گھروالے اس غیر حاضری پر کس اندیشہ و خلجان میں مبتلاہوں گے، اس سے اپنے دماغ کو تکلیف نہیں دیتا۔ اگر وہ پریشان ہیں تو میں کیا کروں؟ میں بچہ نہیں ہوں۔ اگر غیر حاضر رہتا ہوں رہنے دیں۔

وہ شفقت پناہ عورت جسے ماں کہتے ہیں آنکھوں میں آنسو بھر کے اس کی خوشامد کرتی ہے وہ تین چار منٹ کے لیے متاثر ہو کر اپنی حالت پر افسوس کرتاہے، مگر پرانی ہوائے محبت اس نقش کو بہت جلد زائل کر دیتی ہے، وہی فکر، وہی شرب اپنی فرمانروائی پھر شروع کر دیتے ہیں۔ جو شخص کہ چند ساعت پہلے اپنی والدہ کے حضور میں محجوبیت اور ندامت کے ساتھ حاضر تھا، اب وہی اپنے پرانے شبانہ اشغال میں شریک ہونے کے لیے موجود ہے۔ شام کو دستر خوان کے گرد جمع شدہ خاندان میں ایک شخص کی عدم موجودگی۔۔۔۔ اپنے جگر پاروں کو دیکھتی ہے۔ بڑے بھائی کی غیر حاضری کی وجہ سے دلگیر ہو کر چھوٹے بچے تہالک ِ معصومانہ سے کہتے ہیں:

’’اماں! ہم کھائیں؟ بھائی تو آئے نہیں؟‘‘

بغیر کسی لطف اور لذت کے پیٹ میں کھانا ڈال کر علیحدہ ہو جاتے ہیں۔

سب پڑوسی نوجوان کے انجام سے ڈرتے ہیں، اس کی اصلاح کے متعلق اس کی ماں سے سوال کرتے ہیں، مگر افسوس! ماں بے چاری کیا کرے۔ وہ نصیحت سنتا ہی نہیں۔ ہم کہہ نہیں چکے ہیں کہ وہ ہوا و ہوس سے مغلوب ہے، اس کو اس کے مشاغل سے بازرکھنا سخت مشکل ہے۔ ہوس نے اپنا سکہ جما رکھا ہے، برائیاں حکمرانی کررہی ہیں اور طالع مساعد ہے اور موفقیت زیادہ! جوان کو ماں نے ایک تقریب سے دوسرے شہر میں بھیج دیا ہے کہ شاید اسی ذریعے سے اس کی آشفتہ مزاجی میں کمی ہو۔

وہ چلا گیا ، مگر کیا اس کی حرکات مجنونانہ میں کوئی کمی ہوئی؟ غلط، غلط، تخفیف نہیں ہوئی بلکہ صرف ایک عارضی سکون نے اس کے دماغ کو فعالیت شہوانیہ سے سکتے میں ڈال دیا اور ’’امور معیشت کیا چیز ہیں اور حیات ساعیانہ کسے کہتے ہیں‘‘ یہ اسے بتانا شروع کیا۔ اس کی خواہشیں زائل نہیں ہوئیں۔ صرف ذرائع مفقود تھے۔

حیات ماضی اس کے تخیل سے وابستہ تھی۔ہاں ، کبھی کبھی یہ بھی خیال دل میں جاگزیں ہو جاتا تھا کہ سئیات کس قدر آرام سوز اور طاقت فرسا ہیں۔ ان خیالات سے اس کی پریشانی اور بھی بڑھ جاتی تھی۔ مسائل مہمہ حیات پر غور کرنے سے اس کی حالت بحران تک پہنچ جاتی تھی اور اس زمانے میں بلاکسی کے پاس بھیجنے کے ارادے کے وہ عجیب خط لکھتا تھا، جن میں لذت اشتغال، محظوظیتِ خدمت، نشوئہ آرام سے بحث ہوا کرتی تھی۔

انسانی طبیعت کا مختلف زمانے میں مختلف حالتوں میں ہونا، کیا کیا تبدلات پیدا کرتا ہے آج جو غضب و تکدر اور اندیشوں میں ڈوبا ہوا ہے، وہی کل نشوہ رخندہ و بہجبت سے ہم آغوش ہے، جوشخص ابھی ابھی حیات سفلیانہ سے متنفر ہے، تھوڑی دیر بعد سفالیت کے درجے سے بھی نیچے پڑا ہوتا ہے۔ ابھی جو اصلاح نفس سے بحث کررہا ہے، کچھ تعجب نہیں جو کچھ عرصے کے بعد وہی تعر معاصی میں گرا ہوا ملے، یہ محقق ہے۔

جوان کا بھی یہی حال ہوا۔ اس کی الجھن رفع کرنے کے لیے اس کے چند دوست نما دشمنوں نے صلاح دی کہ شراب پیو۔ نوجوان اس کی جرأت نہ کر سکتا تھا۔ سرخوش لوگوں کے احوال رذیلانہ دیکھ کر اسے شراب سے نفرت ہو گئی تھی۔ اب کس طرح پی سکتا ہے، یہ ہرگز نہ ہوگا۔۔۔

افسوس اس ارادے پر ثابت قدم نہ رہااور ان دوستوں کے اصرار کو رد نہ کر سکا۔ ان کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوا اور یہ سب لوگ سپتجی قہوہ خانے کے سامنے والے مَے خانے میں گئے۔ پہنچتے ہی اس کے دماغ میں ایک کریہہ بو داخل ہوئی۔ یہ مے خانہ نہ تھا بلکہ مزبلہ گاہ معلوم ہوتا تھا۔ چھت بغیر چمنی کے لیمپ کے دھوئیں سے بالکل کالی ہو گئی تھی، ہر کونے میں مکڑی کا ایک بڑا جالا بناہوا تھا۔زمین ایک بالشت گہری کیچڑ میں دبی ہوئی تھی۔ میز کی جگہ پر ایک پرانا مستعمل مٹی کے تیل کاصندوق رکھا ہوا تھاجو تختہ کہ کوچ کا کام دے رہا تھا، اس پر ایک متعفن کریہہ المنظر ٹاٹ (جس نے نہ معلوم کس وقت سے پانی کا منہ نہ دیکھا تھا) پڑا تھا۔ شیشے، برتن، پیالے میل کی وجہ سے نظر نہ آتے تھے۔ تین چار عیاش ایک میز کے گرد احاطہ کئے ہوئے پی رہے تھے۔ یہ بھی اس زمرئہ بدمستی میں شامل ہو گئے اور جا کر بیٹھ گئے۔

جوان نے ایک مدید اور اسرار انگیز نظر سے چاروں طرف دیکھا۔ پھر ایک معنی وار نظر اپنے ساتھیوں پر ڈالی اور کانپ کر پوچھا:

یہاں کیا ہوگا؟

جواب ملا : ’’ عیش و طرب‘‘

جوان نے ایک قہقہہ لگایا اور اس کی آنکھوں میں ایک برق تہور چمکی۔ اس نے پوچھا:

’’پھر؟‘‘

جواب دیا گیا۔ ’’پیئں گے‘‘

’’یہاں؟‘‘

’’ہاں‘‘۔

کانپ اٹھا، محتشم، مکلف عشرت جگہوں میں جب ایک قطرہ منہ میں نہیں ڈالا تو اس مردار و نفرت انگیز مقام میں کیوں کر پی سکے گا۔ اس آبِ زہر ناک کو جو گہری کائی میں دبے ہوئے پیپے سے نکل رہی تھی کیونکر اپنے معدے میں اتار سکتا تھا۔ غرض کہ جوان کی حالت ایسی ہو گئی کہ گویا وہ ہرگز نہ پئے گا لیکن۔۔۔۔ لیکن بات دے چکا تھا، اب کیا ہو سکتا تھا؟ اپنی بات کی سچائی پر اس نے کبھی تکرار کی تھی؟ اب اس کے خلاف اس کے امکان سے خارج تھا۔ خیر، خیر نہ پئے گا۔ اس آب پر اصظرار کو منہ میں نہ ڈالے گا۔

خدمت گار نے اپنے ناپاک ہاتھوں سے ان کے بیچ میں قدح اور شیشے رکھنے شروع کئے۔ اس بیت القوۃ، اس دارالخباثت میں پینے سے مزہ کیونکر آسکتا تھا؟ جوان نے پھر سب کی طرف دیکھا، اتنے میں ایک تیز آواز نے کہا:

’’پانی لائو‘‘۔

یہاں پانی کہاں؟ یہاں پانی سے مراد لوازم نوشا نوش ہیں، جوان کسی طرح اپنے رفیقوں میں شریک نہ ہو سکتا تھا اور وہ ’’آپ کی صحت، آپ کا شرف‘‘ کہہ کہہ کر اصرار کررہے تھے۔ مگر وہ پیالہ ہاتھ میں نہ لیتا تھا۔ چہرے پر تموجات عصبیہ، او ر حسیات ِ نفرت ظاہر ہوتے تھے، مگر افسوس سے نہ کہتا تھا۔

تردہ و خلجان و پریشانی کے ساتھ ہاتھ میں پیالہ لیا گیا۔ ایک لرزش خفی تمام جسم میں دوڑ گئی، جیسے بڑی سردی معلوم ہورہی ہو۔ اس طرح کہ اس کے دانت بجنے لگے۔ بڑھا ہوا ہاتھ بے اختیار پیچھے ہٹ گیا۔ اصرار اور رجا نے اس دست متردد کو پھر بڑھایا، مگر منہ تک لے جانے کی حالت میں یکایک پھر ٹھہر گیا۔ اختلاجات و جدانیہ کی تاب نہ لاسکا اور کہا:

’’نہ پی سکوں گا‘‘۔ مگر ابھی پیالہ ہاتھ میں ہے۔

’’کیا جانیے کیاہو؟‘‘ دو معنی دار نظروں نے اسے گھورکے دیکھا اور پیالہ خالی کر دیا گیا۔ اس کے جسم میں ایک حرارت آئی اور اسے اپنے پر اختیار نہ رہا۔ دوسرے پیالے نے حرارت میں تخفیف کی، شیشہ خالی کیا گیا، اور اب اسے نشوئہ بدمستی کا احساس ہوا۔

کیا تم یقین کرو گے؟ متاسف ہے، آیا پینے سے ؟ شاید، اور شاید اس وجہ سے کہ اچھی جگہوں میں نہ پی اور پی تو یہاں۔

نشوئہ خمار نے فریفتہ کر دیا۔ میدان پا کر پینا شروع کر دیا۔ یہی ہوتاہے۔۔۔بات ، پہلے ہی مرتبہ کے نہ پینے میں ہے۔۔۔ اس کے بعد کچھ نہیں ہوتا!

جوان اس وقت سے اپنی زندگی زہریلی کررہا ہے۔

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse