نشتر کی نوک دل میں اتارے چلے گئے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نشتر کی نوک دل میں اتارے چلے گئے
by عابد علی عابد

نشتر کی نوک دل میں اتارے چلے گئے
ہم یوں عروس غم کو سنوارے چلے گئے

آیا نہ ہاتھ گوشۂ دامان التفات
لیکن فقیر ہاتھ پسارے چلے گئے

قائم رہیں بوصف کرم بھی حدود ناز
دریا کے ساتھ ساتھ کنارے چلے گئے

دل کو تمہیں نے ہاتھ میں لے کر مسل دیا
ہم سادہ دل تمہیں کو پکارے چلے گئے

چلنا رہ حیات پہ دشوار تھا مگر
تیرے متاع غم کے سہارے چلے گئے

آیا ترا خیال مٹے نقش ماسوا
ابھرا افق سے چاند ستارے چلے گئے

محفل کو ناگوار تھی عرض شکست دل
محفل سے اٹھ کے درد کے مارے چلے گئے

ہاں اے زمین گور غریباں جواب دے
کیوں مجھ سے روٹھ کر مرے پیارے چلے گئے

عابدؔ زمانہ ہم کو مٹاتا چلا گیا
ہم نقش زندگی کو ابھارے چلے گئے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse