نشاں علم و ادب کا اب بھی ہے اجڑے دیاروں میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نشاں علم و ادب کا اب بھی ہے اجڑے دیاروں میں
by ساحر دہلوی

نشاں علم و ادب کا اب بھی ہے اجڑے دیاروں میں
کہ سالمؔ اور مضطرؔ ہیں پرانی یاد گاروں میں

غرض کیفیؔ و شاعرؔ سائلؔ و بیخودؔ حسنؔ شیداؔ
علم ہیں عرصۂ علم و ادب کے شہسواروں میں

نسیمؔ و برقؔ و رونقؔ غوثؔ و کیفیؔ عزمیؔ و ماہرؔ
شررؔ اور زارؔ و معجزؔ نامور ہیں سحر کاروں میں

مبیںؔ یکتاؔ قمرؔ اخلاقؔ شوقؔ اور شاکرؔ و غافلؔ
منیرؔ و شمسؔ سب ہیں علم و فن کے دوستداروں میں

قریشیؔ واحدیؔ آصفؔ بقائی اور حسنؔ خواجہ
ہیں عہد حاضرہ میں سب ادب کے پختہ کاروں میں

سعیدؔ و یاسؔ و وحشیؔ امنؔ اور محمودؔ اور اکبرؔ
نہیں گو دہلی والے دہلوی ہیں استعاروں میں

منورؔ منتظرؔ برکتؔ جریؔ فانیؔ ادیبؔ عاشقؔ
نہالؔ اور فکرؔ آتے ہیں اسی مد کے شماروں میں

ہماری درس گاہوں میں ادب کے ناظمؔ و ناشرؔ
خدا رکھے نظر آتے ہیں اکثر ہونہاروں میں

علیؔ و طالبؔ و شیداؔ و تاباںؔ ساقیؔ و مائلؔ
ہوا تاراج گلشن جب خزاں آئی بہاروں میں

فراقؔ اور میرؔ ناصرؔ اور سری رامؔ اب کہاں ساحرؔ
کہ تھے علم و ادب کے بہتریں خدمت گزاروں میں


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.