نسیم ہے ترے کوچے میں اور صبا بھی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نسیم ہے ترے کوچے میں اور صبا بھی ہے
by مرزا محمد رفیع سودا

نسیم ہے ترے کوچے میں اور صبا بھی ہے
ہماری خاک سے دیکھو تو کچھ رہا بھی ہے

ترا غرور مرا عجز تا کجا ظالم
ہر ایک بات کی آخر کچھ انتہا بھی ہے

جلے ہے شمع سے پروانہ اور میں تجھ سے
کہیں ہے مہر بھی جگ میں کہیں وفا بھی ہے

خیال اپنے میں گو ہوں ترانہ سنجاں مست
کراہنے کے دلوں کو کبھی سنا بھی ہے

زبان شکوہ سوا اب زمانہ میں ہیہات
کوئی کسو سے بہم دیگر آشنا بھی ہے

ستم روا ہے اسیروں پہ اس قدر صیاد
چمن چمن کہیں بلبل کی اب نوا بھی ہے

سمجھ کے رکھیو قدم خار دشت پر مجنوں
کہ اس نواح میں سوداؔ برہنہ پا بھی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse