نذر علی گڑھ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نذر علی گڑھ
by مجاز لکھنوی

سرشار نگاہ نرگس ہوں پا بستۂ گیسوئے سنبل ہوں
یہ میرا چمن ہے میرا چمن میں اپنے چمن کا بلبل ہوں
ہر آن یہاں صہبائے کہن اک ساغر نو میں ڈھلتی ہے
کلیوں سے حسن ٹپکتا ہے پھولوں سے جوانی ابلتی ہے
جو طاق حرم میں روشن ہے وہ شمع یہاں بھی جلتی ہے
اس دشت کے گوشے گوشے سے اک جوئے حیات ابلتی ہے
اسلام کے اس بت خانے میں اصنام بھی ہیں اور آذر بھی
تہذیب کے اس مے خانے میں شمشیر بھی ہے اور ساغر بھی
یاں حسن کی برق چمکتی ہے یاں نور کی بارش ہوتی ہے
ہر آہ یہاں اک نغمہ ہے ہر اشک یہاں اک موتی ہے
ہر شام ہے شام مصر یہاں ہر شب ہے شب شیراز یہاں
ہے سارے جہاں کا سوز یہاں اور سارے جہاں کا ساز یہاں
یہ دشت جنوں دیوانوں کا یہ بزم وفا پروانوں کی
یہ شہر طرب رومانوں کا یہ خلد بریں ارمانوں کی
فطرت نے سکھائی ہے ہم کو افتاد یہاں پرواز یہاں
گائے ہیں وفا کے گیت یہاں چھیڑا ہے جنوں کا ساز یہاں
اس فرش سے ہم نے اڑ اڑ کر افلاک کے تارے توڑے ہیں
ناہید سے کی ہے سرگوشی پروین سے رشتے جوڑے ہیں
اس بزم میں تیغیں کھینچی ہیں اس بزم میں ساغر توڑے ہیں
اس بزم میں آنکھ بچھائی ہے اس بزم میں دل تک جوڑے ہیں
اس بزم میں نیزے پھینکے ہیں اس بزم میں خنجر چومے ہیں
اس بزم میں گر کر تڑپے ہیں اس بزم میں پی کر جھومے ہیں
آ آ کے ہزاروں بار یہاں خود آگ بھی ہم نے لگائی ہے
پھر سارے جہاں نے دیکھا ہے یہ آگ ہمیں نے بجھائی ہے
یاں ہم نے کمندیں ڈالی ہیں یاں ہم نے شب خوں مارے ہیں
یاں ہم نے قبائیں نوچی ہیں یاں ہم نے تاج اتارے ہیں
ہر آہ ہے خود تاثیر یہاں ہر خواب ہے خود تعبیر یہاں
تدبیر کے پائے سنگیں پر جھک جاتی ہے تقدیر یہاں
ذرات کا بوسہ لینے کو سو بار جھکا آکاش یہاں
خود آنکھ سے ہم نے دیکھی ہے باطل کی شکست فاش یہاں
اس گل کدۂ پارینہ میں پھر آگ بھڑکنے والی ہے
پھر ابر گرجنے والے ہیں پھر برق کڑکنے والی ہے
جو ابر یہاں سے اٹھے گا وہ سارے جہاں پر برسے گا
ہر جوئے رواں پر برسے گا ہر کوہ گراں پر برسے گا
ہر سرو و سمن پر برسے گا ہر دشت و دمن پر برسے گا
خود اپنے چمن پر برسے گا غیروں کے چمن پر برسے گا
ہر شہر طرب پر گرجے گا ہر قصر طرب پر کڑکے گا
یہ ابر ہمیشہ برسا ہے یہ ابر ہمیشہ برسے گا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse