ندیم باغ میں جوش نمو کی بات نہ کر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ندیم باغ میں جوش نمو کی بات نہ کر
by اختر انصاری اکبرآبادی

ندیم باغ میں جوش نمو کی بات نہ کر
بہار آ تو گئی رنگ و بو کی بات نہ کر

عجیب بھول بھلیاں ہے شاہراہ حیات
بھٹکنے والے یہاں جستجو کی بات نہ کر

تباہ کر نہ مذاق جنوں کی خودداری
دل تباہ کسی تند خو کی بات نہ کر

خود اپنے طرز عمل کو سنوار اور سنوار
مرے رفیق طریق عدو کی بات نہ کر

گریز حسن کو انداز حسن کہتے ہیں
نظر سے دیکھ مگر خوبرو کی بات نہ کر

یہ برق حسن جلاتی تو ہے مگر ناصح
وہ اور شے ہے مرے شعلہ خو کی بات نہ کر

یہ میکدے کی فضا کہہ رہی ہے اے اخترؔ
کہ تشنگی میں بھی جام و سبو کی بات نہ کر

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse