نخوت حسن پسند آئی ہے دیوانے کو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نخوت حسن پسند آئی ہے دیوانے کو
by وحید الہ آبادی

نخوت حسن پسند آئی ہے دیوانے کو
سرکشی شمع کی منظور ہے پروانے کو

دیکھیے کون سی جا یار کا ملتا ہے پتہ
کوئی کعبے کو چلا ہے کوئی بت خانے کو

تیری فرقت میں تصور ہے یہ بے دردی کا
خواب ہم جانتے ہیں نیند کے آ جانے کو

کام آ جاتی ہے ہم بزمی بھی روشن دل کی
شمع ہم رنگ بنا لیتی ہے پروانے کو

گل پہ بلبل تھا کہیں شمع پہ پروانہ تھا
ہم نے ہر رنگ میں دیکھا ترے دیوانے کو

وا شد دل نہ ہوئی غنچۂ خاطر نہ کھلا
کون سے باغ میں آئے تھے ہوا کھانے کو

میں نے جب وادئ غربت میں قدم رکھا تھا
دور تک یاد وطن آئی تھی سمجھانے کو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse