نثار اس پر نہ ہونے سے نہ تنگ آیا نہ عار آئی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نثار اس پر نہ ہونے سے نہ تنگ آیا نہ عار آئی
by کیفی حیدرآبادی

نثار اس پر نہ ہونے سے نہ تنگ آیا نہ عار آئی
مرے کس کام آخر زندگئ مستعار آئی

یہیں دیکھا کہ غلبہ ایک کو ہوتا ہے لاکھوں پر
طبیعت ایک بار آئی ندامت لاکھ بار آئی

ترے دل سے ترے لب تک تری آنکھوں سے مژگاں تک
محبت بے قرار آئی مروت شرمسار آئی

شراب عشق سے کرنے کو تھا توبہ کہ یار آیا
مرے آڑے یہ نیکی کب کی اے پروردگار آئی

دل محزوں کی آہیں مست کرتی ہیں مجھے کیفیؔ
کہ جب لی سانس میں نے مجھ کو بوئے زلف یار آئی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse