نثار اس پر نہ ہونے سے نہ تنگ آیا نہ عار آئی
Appearance
نثار اس پر نہ ہونے سے نہ تنگ آیا نہ عار آئی
مرے کس کام آخر زندگئ مستعار آئی
یہیں دیکھا کہ غلبہ ایک کو ہوتا ہے لاکھوں پر
طبیعت ایک بار آئی ندامت لاکھ بار آئی
ترے دل سے ترے لب تک تری آنکھوں سے مژگاں تک
محبت بے قرار آئی مروت شرمسار آئی
شراب عشق سے کرنے کو تھا توبہ کہ یار آیا
مرے آڑے یہ نیکی کب کی اے پروردگار آئی
دل محزوں کی آہیں مست کرتی ہیں مجھے کیفیؔ
کہ جب لی سانس میں نے مجھ کو بوئے زلف یار آئی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |