نت جی ہی جی میں عشق کے صدمے اٹھائیو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نت جی ہی جی میں عشق کے صدمے اٹھائیو
by مرزا محمد تقی ہوسؔ

نت جی ہی جی میں عشق کے صدمے اٹھائیو
شکوے کی بات منہ پہ ہوسؔ تم نہ لائیو

شوق ان دنوں ہوا ہے اسے داستان کا
یارو کوئی مری بھی کہانی سنائیو

رہنے دے میری خاک تو اس در پہ اے صبا
مشت غبار خستہ‌ دلاں مت اٹھائیو

جی کو یقیں ہے حشر میں ڈھونڈوں‌ گا میں تجھے
ظالم وہاں تو مجھ سے نہ مکھڑا چھپائیو

اس میں زیاں ہے جان کا سنتا ہے اے ہوسؔ
زنہار بار عشق نہ سر پر اٹھائیو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse