نباہ بات کا اس حیلہ گر سے کچھ نہ ہوا
Appearance
نباہ بات کا اس حیلہ گر سے کچھ نہ ہوا
ادھر سے کیا نہ ہوا پر ادھر سے کچھ نہ ہوا
جواب صاف تو لاتا اگر نہ لاتا خط
لکھا نصیب کا جو نامہ بر سے کچھ نہ ہوا
ہمیشہ فتنے ہی برپا کیے مرے سر پر
ہوا یہ اور تو اس فتنہ گر سے کچھ نہ ہوا
بلا سے گریۂ شب تو ہی کچھ اثر کرتا
اگرچہ عشق میں آہ سحر سے کچھ نہ ہوا
جلا جلا کے کیا شمع ساں تمام مجھے
بس اور تو مجھے سوز جگر سے کچھ نہ ہوا
رہیں عدو سے وہی گرم جوشیاں اس کی
اس آہ سرد اور اس چشم تر سے کچھ نہ ہوا
اٹھایا عشق میں کیا کیا نہ درد سر میں نے
حصول پر مجھے اس درد سر سے کچھ نہ ہوا
شب وصال میں بھی میری جان کو آرام
عزیزو درد جدائی کے ڈر سے کچھ نہ ہوا
نہ دوں گا دل اسے میں یہ ہمیشہ کہتا تھا
وہ آج لے ہی گیا اور ظفرؔ سے کچھ نہ ہوا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |