نا خوش دکھا کے جس کو ناز و عتاب کیجے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نا خوش دکھا کے جس کو ناز و عتاب کیجے
by نظیر اکبر آبادی

نا خوش دکھا کے جس کو ناز و عتاب کیجے
اے مہرباں پھر اس کو خوش بھی شتاب کیجے

جو اپنے مبتلا ہوں اور دل سے چاہتے ہوں
لازم نہیں پھر ان سے رکئے حجاب کیجے

بیٹھے جو شام تک ہم بولا وہ مہرباں ہو
جو خواہشیں ہیں ان کا کچھ انتخاب کیجے

ہم نے نظیرؔ ہنس کر اس شوخ سے کہا یوں
ہیں خواہشیں تو اتنی کیا کیا حساب کیجے

موقع کی اب تو یہ ہے جو وقت شب ہے اے جاں
ہم بیٹھے پاؤں دابیں اور آپ خواب کیجے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse