نایاب ہے سکون دل بے قرار میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نایاب ہے سکون دل بے قرار میں
by واجد علی شاہ

نایاب ہے سکون دل بے قرار میں
بسمل کی ہے تڑپ مرے کنج مزار میں

گلزار دہر میں چمن بے خزاں ہوں میں
لالے کا رنگ ہے جگر داغ دار میں

کانٹا ملا ہے گونج کا زلفوں کا جال ہے
بالی کی مچھلی ہاتھ لگی ہے شکار میں

نو لاکھ کی جبھی ہوئی قیمت اسے نصیب
موتی تھے میرے آبلوں کے ان کے ہار میں

ایام عیش میں رخ دولت سے ہے الگ
افسوس پر ہمارے کٹے ہیں بہار میں

جب سے اڑی ہے خاک الم رشک ماہتاب
اک آسمان اور ہے میرے غبار میں

دھوئی ہوئی ہے دودھ سے تیری زبان صاف
اخترؔ تو ہی ہے شاعروں کے اعتبار میں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse