نام پر حرف نہ آنے دیجے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نام پر حرف نہ آنے دیجے
by دیا شنکر نسیم

نام پر حرف نہ آنے دیجے
جان اگر جائے تو جانے دیجے

یاس کی آس نہ ٹوٹے جس میں
آس کو پاس نہ آنے دیجے

پارۂ دل نہ تھما مردم چشم
بیٹھیے مجھ کو اوٹھانے دیجے

غصہ کیا اب تو گیا یاں سے نسیمؔ
آئیے بیٹھیے جانے دیجے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse