نالۂ دل کی تو کوتاہی نہیں
Jump to navigation
Jump to search
نالۂ دل کی تو کوتاہی نہیں
پر اثر کچھ اس کو ہوتا ہی نہیں
کتنا وہ قاتل ہے بے خوف و خطر
تیغ خوں آلودہ دھوتا ہی نہیں
اس گلی میں جس طرح روتا ہوں میں
اس طرح تو کوئی روتا ہی نہیں
خار زار عشق کو کیا ہو گیا
پاؤں میں کانٹے چبھوتا ہی نہیں
ترک کی لذت سے واقف کون ہیں
گر نہ ہوتا جان کھوتا ہی نہیں
جانتا گر دل ہے مزرع یاس کا
تخم امید اس میں بوتا ہی نہیں
جوں سخن آتا ہے سلک نظم میں
یوں کوئی موتی پروتا ہی نہیں
خواب میں ؔجوشش وہ آئے کس طرح
عاشق بے تاب سوتا ہی نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.
Public domainPublic domainfalsefalse