نالہ جدھر میرا گزر کر گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نالہ جدھر میرا گزر کر گیا
by مرزا جواں بخت جہاں دار

نالہ جدھر میرا گزر کر گیا
تیر سا ہر دل میں اثر کر گیا

دل نہ رہا آپ میں اور میں بہ خود
میری طرف جب وہ نظر کر گیا

کھول کے زلفوں کے تئیں چہرہ پر
یار بہم شام و سحر کر گیا

اہل ہوس رات گلی میں تری
جانے سے اے شوخ حذر کر گیا

اور جو مجھ سا تھا کوئی جاں فشاں
در پہ ترے جی سے گزر کر گیا

دیکھیو ثابت قدمی قیس کی
عشق میں کیا عمر بسر کر گیا

راہ خطرناک محبت کو طے
با قدم دیدۂ تر کر گیا

کوئی تھا کوچے میں صنم کے جو آج
گریۂ خوں تا بہ کمر کر گیا

عقل پہ نازاں ہوں جہاں دارؔ کی
دل نہ دیا اس کو ہنر کر گیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse