نالہ اس شور سے کیوں میرا دہائی دیتا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نالہ اس شور سے کیوں میرا دہائی دیتا
by محمد ابراہیم ذوق

نالہ اس شور سے کیوں میرا دہائی دیتا
اے فلک گر تجھے اونچا نہ سنائی دیتا

دیکھ چھوٹوں کو ہے اللہ بڑائی دیتا
آسماں آنکھ کے تل میں ہے دکھائی دیتا

لاکھ دیتا فلک آزار گوارہ تھے مگر
ایک تیرا نہ مجھے درد جدائی دیتا

دے دعا وادی پر خار جنوں کو ہر گام
داد یہ تیری ہے اے آبلہ پائی دیتا

روش اشک گرا دیں گے نظر سے اک دن
ہے ان آنکھوں سے یہی مجھ کو دکھائی دیتا

منہ سے بس کرتے کبھی یہ نہ خدا کے بندے
گر حریصوں کو خدا ساری خدائی دیتا

پنجۂ مہر کو بھی خون شفق میں ہر روز
غوطے کیا کیا ہے ترا دست حنائی دیتا

کون گھر آئینے کے آتا اگر وہ گھر میں
خاکساری سے نہ جاروب صفائی دیتا

میں ہوں وہ صید کہ پھر دام میں پھنستا جا کر
گر قفس سے مجھے صیاد رہائی دیتا

خوگر ناز ہوں کس کس کا کہ مجھے ساغر مے
بوسۂ لب نہیں بے چشم نمائی دیتا

دیکھ گر دیکھنا ہے ذوقؔ کہ وہ پردہ نشیں
دیدۂ روزن دل سے ہے دکھائی دیتا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse